تین دن تک جاتی امراء کے درودیوار سےتعزیت کرکے لوٹ آیا۔ اتنے اعلیٰ کردار کی عورتیں ہماری سیاسی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں۔وہ مسلسل برسہا برس سے اپنے شوہر نواز شریف کو ملنے والی ناکردہ گناہوں کی سزا میں ذہنی طور پر شریک رہیں لیکن ’’خاتون اول‘‘ کے کروفر کا سوچا بھی نہیں۔ یہی خاتون اول ایک بار اپنے میاں کے ساتھ ہمارے گھر تشریف لائیں تو ہمیں اپنے خاندان ہی کا کوئی فرد محسوس ہوئیں۔ ان کو جلا وطنی کے زمانے میں جدہ میں بھی دیکھا اور لندن میں کوما کی حالت میں بھی پایا۔ میاں نواز شریف، مریم نواز اور پرویز رشیداسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں انتظار کرتے رہتے تھے کہ شاید وہ آنکھیں کھولیں اور ان کے باؤ جی ان کی آواز سن سکیں۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ میں اگلی فلائٹ سے واپس لاہور آ گیا۔ یہاں کچھ سنگدل لوگوں کو بیگم کلثوم کی بیماری کے بارے میں گھٹیا باتوں کی گردان اس طرح کرتے دیکھا جو وہ ایک عرصے سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ اور یہ ننگ انسانیت لوگ ان کی وفات کے بعد بھی اپنے گھٹیا پن پر ڈٹے رہے۔
لیکن ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بیگم کلثوم نواز کے پر عزم جذبوں کو یاد رکھنے والے لاکھوں کی تعداد میں جاتی امرا میں آتے رہے۔ تین دن ایسے ہی گزرے ، کچھ دنوں بعد میاں نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر، کی سزا اگلے مرحلے تک معطل ہوئی تو اڈیالہ جیل سے ان کی رہائی، اور ائیر پورٹ پر ان سے محبت کرنے والے امڈتے چلے آرہے تھے ۔ ان میں میری طرح یقیناً اور بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو ان کی قید کے دوران اپنی باری کے انتظار میں دوسرے ملاقاتیوں کے ساتھ باہر کھڑےرہے مگر انہیں موقع نہ مل سکا۔ جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میاں صاحب اور ان کی فیملی اس وقت گونا گوں صدموں کا شکار ہے۔ ان تک آپ کی محبتیں پہنچ رہی ہیں۔ ابھی کچھ دن انتظار کریں، ملاقات ضروری نہیں۔ انہیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔
آخر میں ایک ’’واہمہ‘‘ !میاں نواز شریف پر مقدموں کی بھرمار ایک بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہے جو ان کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا اور اب اس ایجنڈے کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں، اگر ہم نے فصلی بٹیروں پر اپنے مخلص دوست چین کو ناراض کیا اور چند ’’چھلکوں‘‘ کے عوض کسی بھی فرقہ وارانہ محاذ آرائی اور اسلامی ملکوں کے باہمی تنازعات میں اپنا وزن کسی کے پلڑے میں ڈالا تو پاکستان تباہی کے کنارے جا پہنچے گا۔ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران اس طرح کی کوششیں ہوئیں مگر پاکستان نے اسٹینڈ لیا اور سزا بھگتنے والوں کو بھگتنا پڑی۔ بھلےد نوں میں جب میاں صاحب سے ملاقات ہوتی تھی تو وہ کسی مسئلے پر مشورہ طلب کرتے تھے اور میں ہنس کر دکھا دیتا تھا کہ جب تک پس منظر اور پیش منظر پر دسترس نہ ہو تو انسان مشورہ مانگے جانے پر بونگیاں ہی مار سکتا ہے ۔ میں ویسے بھی غیر سیاسی شخص ہوں۔ اپنا اظہار مزاح نگاری میں کرتا ہوں ، چنانچہ ان کے مشورہ مانگنے پر میں نے اپنی بونگیوں اور ہنسنے کو ایک ہی معنوں میں استعمال کیا ہے، تاہم اس وقت پوری سنجیدگی سے ایک مشورہ دینے کے موڈ میں ہوں اور وہ یہ کہ میاں صاحب اس عبوری دور میں جماعت کے زندہ ہونے کا تو بھرپور ثبوت دیں مگر حد رفتار کم رکھیں۔ بس عوام کو خود سے دور نہ رکھیں۔ ہفتے میں ایک دن آپ ،ایک دن مریم نواز، ایک دن شہباز شریف اور ایک دن حمزہ شہباز ان لوگوں سے ضرور ملیں۔ جن سے ملاقات ان کے لئے بہت ضروری ہے۔
اور آخر میں چلتے چلتے ایک بات! میں پورے یقین سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ نواز شریف کو اقتدار سے اب کوئی دلچسپی نہیں، جیل سے انہیں رتی بھر خوف نہیں، آپ چاہیں ساری عمر انہیں قید میں رکھیں مگر تاریخ حریت میں اور دلوں پر ان کا نام ثبت ہو چکا ہے۔ ماہ ِمحرم اپنی نشانیاں اپنی یادیں اور اپنے کردار چھوڑ کر جایا کرتا ہے ۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ