بہت عرصہ پہلے امریکہ سے واپسی پر ایک باریش بزرگ میرے پاس تشریف لائے، یہ بزرگ دینی نوعیت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ان کا دل قومی اور ملی جذبے سے پوری طرح سرشار ہے۔ انہوں نے مجھ سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے بارے میں متعدد سوالات کئے جن کا حاصل یہ تھا کہ آیا وہاں مقیم مسلمان اپنی آئندہ نسلوں کو سچا مسلمان بنانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟میں نے انہیں بتایا کہ جو پاکستانی اپنی عمر کا موثر حصہ پاکستان میں گزارنے کے بعد امریکہ جاتے ہیں وہ اپنی ثقافتی اور روحانی پہچان نہ صرف یہ کہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ اس ضمن میں ایک مشنری سپرٹ کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔وہ مسجدیں تعمیر کررہے ہیں اسلامی مرکز اور اسلامی ادارے بنارہے ہیں اور یوں اپنے بچوں کو پاکستانی ثقافت سے روشناس کرانے اور ان میں اسلامی روح بیدار رکھنے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لانے میں مشغول ہیں، تاہم میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جو بچہ امریکہ میں پیدا ہوتا ہے اور وہاں کے ماحول میں جوان ہوتا ہے اسے اپنے نظریات کے مطابق چلانا نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں بلکہ اسے سخت ذہنی بحران سے دو چار کرنا بھی ہے۔
میں نے اپنی گفتگو کے آخر میں نے ان بزرگ سے کہا کہ آپ ماشاء اللہ اپنے دل میں ملک اور قوم کا درد رکھتے ہیں اگرچہ جو کام کررہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے لیکن اگر آپ پاکستانی معاشرے کو خوبصورت بنانے کے لئے بھی جدوجہد کریں تو شاید لاکھوں پاکستانی مسلمان مادی طور پر بہتر زندگی کے حصول کے لئے ان معاشروں میں آباد ہونے کا خیال ترک کردیں جو آہستہ آہستہ ان کی آئندہ نسلوں کا رابطہ قوم اور ملت سے منقطع کردیتا ہے۔ اسی طرح ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ باہر جانے کے لاکھوں خواہشمند نوجوانوں کو یہ بتایا جائے کہ سماجی اور معاشی مسائل سے نجات پانے کی کتنی بڑی قیمت ا نہیں ادا کرنا پڑے گی، چنانچہ میرے خیال میں’’ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘ والی حقیقت زیادہ موثر انداز میں نوجوانوں کو بتانا چاہئے۔
دین سے گہری وابستگی رکھنے والے اس بزرگ نے میری باتیں غور سے سنیں اور پھر آخر میں کہا میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں ان شاء اللہ اس سلسلے میں جو بھی بن آیا وہ کروں گا فی الحال تو ایک کام کے سلسلے میں حاضر ہوا تھا دراصل میرا بڑا بیٹا امریکہ جانا چاہتا ہے میں نے اسے بہت سمجھایا ہے وہ نہیں مانتا ویسے بھی یہاں کچھ نہیں رکھا۔ آپ اگر ویزا دلانے میں اس کی مدد کرسکیں تو ممنون ہوں گا۔ ان کی اس فرمائش پر مجھے ہنسی اور رونا دونوں آئے۔ بہرحال اس بزرگ کی بات سے کم از کم یہ بات تو ضرور واضح ہوگئی ہوگی کہ مضبوط سے مضبوط لوگوں کے نظریات بھی سماجی اور معاشی مسائل کے طوفان میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے عمل کی توضیحات اور تاویلات تلاش کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی زندگی نظریات کی روشنی میں بسر کرنا چاہتے ہیں لیکن سماجی اور معاشی مسائل نے بعض انتہائی گھنائونی برائیوں کو ناگزیر بنادیا ہے، چنانچہ وہ ان برائیوں سے اتنے مانوس ہوگئے ہیں کہ ضمیر انہیں گناہوں سے نہیں روکتا، ایک بیمار آدمی جس کے پاس دوا کے لئے پیسے نہیں ہم اس کے لئے دوا فراہم کرنے کے بجائے اسے کلمہ سنانے کے لئے کہتے ہیں جس پر وہ شخص یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا کلمہ بدل گیا ہے؟ جہاں دوا کی ضرورت ہو وہاں دوا ہی دینا پڑے گی۔
سماجی اور معاشی مسائل کے مقابلے میں نظریات کی کیا اہمیت ہے؟ اس سوال کا جواب آپ پندرہ بیس ہزار روپے ماہوار کے اس ملازم سے پوچھئے جو ایک کمرے میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنے بچوں کی موجودگی میں رہتا ہے۔ ہم پڑھے لکھے لوگ آزادیٔ اظہار رائے کے بہت رسیا ہیں، جمہوریت کے عاشق ہیں، لیکن کیا آپ کے اور میرے گھروں میں کام کرنے والے بچوں اور نادار عورتوں کا مسئلہ بھی یہی ہے۔سماجی اور معاشی مسائل قوم کے سبھی طبقوں کو ان کی نظریاتی بنیادوں سے بہت دور لے جارہے ہیں۔ معاشرے میں نظر آنے والی لوٹ کھسوٹ، نفسا نفسی نوٹوں اور پلاٹوں کے لئے اپنی وفاداریاں بدلنے والے ایم پی اے اور ایم این اے،اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لئے معاشرے کو کرپٹ کرنے والے صاحبان اقتدار، قوم کو گمراہ کرنے والے عالم،دانشور، ادیب، صحافی، شاعر……. یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ سب نظریاتی لوگ ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کے نظریات کو کس کی نظر کھا گئی ہے؟ گزشتہ چالیس برسوں میں کبھی اسلام اور کبھی سوشلزم کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانے والے لوگ کون تھے؟ عمل کے بغیر لفظوں کی تکرار سے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ایک محفل میں لوگوں نےایک گلوکار سےایک ہی گانا پورے اصرار کے ساتھ چار دفعہ سنا، جب لوگوں نے پانچویں دفعہ اس گانے کی فرمائش کی تو گلوکار نے کہا یہ گانا میں نے چار دفعہ سنایا ہے، اب کوئی اور گانا سناتا ہوں۔ اس پر لوگوں نے بیک آواز کہا آپ جب تک یہ گانا ٹھیک طرح نہیں گائیں گئے ہم اگلا گانا نہیں سنیں گے؟ میرے خیال میں ہمارے ہاں ابھی تک کوئی نظریاتی راگ سُر میں نہیں گایا گیا،اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو اپنے کلچر اور اپنی روایات سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نظریاتی راگ سُر میں گانا پڑیں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ