(گزشتہ سے پیوستہ)
بس تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ براس قصبہ ایک ٹیلے پر واقع تھا۔ جب ہم یہاں پہنچے تو مٹی کے بنے ہوئے گھروں میں سے بیشمار بچے اچانک نکلے اور ہماری بس کے گرد جمع ہو گئے۔ اس گاؤں میں زیادہ تعداد سکھوں کی تھی چنانچہ ننھے ننھے بچوں نے سروں پر چونڈے کئے ہوئے تھے اور وہ بہت پیارے لگ رہے تھے۔ زائرین بسوں میں سے اترے اور قدرے بلندی پر واقع اس چار دیواری میں داخل ہو گئے جہاں ایک روایت کے مطابق بعض انبیائے کرام مدفون تھے۔ یہاں کئی کئی گز لمبی دو تین قبریں تھیں جو مبینہ طور پر انبیاء کرام کی تھیں۔ زائرین نے یہاں قرآن مجید کی تلاوت کی اور دعا مانگی۔ دعا سے فراغت کے بعد بسوں کی طرف واپس جانے کیلئے ڈھلان سے اترتے ہوئے اچانک ایک دبلا پتلا سا ہندو ہمارے وفد کے قائد جسٹس صدیق چوہدری کے پاس آیا اور ان کے کان میں کچھ کہا اور پھر زائرین کے آگے آگے چلنے لگا۔ جسٹس صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہ ہندو انہیں بتا کر گیا ہے کہ سکھوں نے اس گاؤں میں بہت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی، بے شمار مسلمان عورتوں کو انہوں نے اپنے گھر میں قید کر لیا تھا جو آج بھی انہی گھروں میں بند ہیں اور ان کے بچوں کی مائیں ہیں، نیز یہ کہ سینکڑوں مسلمان لڑکیوں نے اپنی عزت بچانے کیلئے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دی تھیں اور یہ کنویں ان کی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین کنویں اسکے علم میں ہیں اور وہ ان کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے۔ یہ خبر آگ کی طرح زائرین میں پھیل گئی اور وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس شخص کے پیچھے چلنے لگے۔
تھوڑی دیر بعد وہ ایک ہموار جگہ پر رک گیا جہاں خودرو پھول لہلہا رہے تھے۔ ان پھولوں کے نیچے کنواں تھا جو بند ہو چکا تھا یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک اور کنواں تھا جو مسلمان لڑکیوں کی لاشوں سے بھرا ہوا تھا اور اب اسے بھی بند کیا جا چکا تھا۔ یہاں بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔ تیسرا کنواں بہت سارے گھروں کے درمیان واقع تھا اور یہ اپنی شکل میں موجود تھا۔ اسے بند نہیں کیا گیا تھا لیکن لاشوں کے پٹ جانے کی وجہ سے چونکہ اس کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا تھا، لہٰذا اب اس میں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ غم کی شدت سے زائرین کے کلیجے شق تھے اور آنکھیں ساون کی طرح برس رہی تھیں۔ خود مجھے یوں لگا میں 1977ء کے بجائے 1947ء میں سانس لے رہا ہوں۔ میں نے چشمِ تصور میں دیکھا کہ جوان مردوں اور بوڑھی عورتوں کی لاشوں سے یہ میدان اٹا پڑا ہے اور وحشی درندے شراب کے نشے میں دھت بھیانک قہقہے لگاتے ہوئے بچیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور وہ اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی لاشوں کو پھلانگتی ہوئی اس کنویں کے پاس آتی ہیں اور ایک ایک کرکے اس میں چھلانگ لگا دیتی ہیں۔ یہ کنواں لاشوں سے بھر گیا ہے اور اس کا پانی کناروں سے بہنے لگا ہے اور پھر یہ بہتا ہوا پانی فریاد کیلئے اس چار دیواری کے نیچے جمع ہو گیا ہے جہاں انبیاء کرام کے مزار ہیں۔
یہاں وفد میں شامل ایک باریش بزرگ نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور پھر جوں جوں ان کی ہچکیوں بھری آواز بلند ہوتی گئی، زائرین کی آہ و بکا میں شدت آتی گئی اور پھر روتے روتے گلے رندھ گئے۔ بھائی تیس برس بعد اپنی بہنوں کی خبر لینے آئے تھے اور پل بھر کے بعد انہوں نے پھر جدا ہو جانا تھا۔ اردگرد کے مکانوں سے بہت سی ہندو اور سکھ عورتیں بھی ذرا فاصلے پر کھڑے ہوکر یہ دلخراش منظر دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے بہتے آنسو خشک کرنے کیلئے اپنے پلو آنکھوں پر رکھ لئے تھے اور ان میں سے ایک عوررت کو میں نے دیکھاکہ اس کے چہرے پر شدید کرب تھا اور وہ ایک ایک زائر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بے اختیار ہوکر اس نے ایک چیخ ماری اور پھر بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ مجھے لگا یہ عورت اُن میں سے ایک ہے جن کے پیٹ پھولے ہوئے ہیں اور آنکھیں تارے لگی ہوئی ہیں۔
دعا سے فراغت کے بعد سندھ یونیورسٹی کے ایک نوجوان نے مجھ سے کہا ’’یہاں آنے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ دو قومی نظریہ غلط ہے۔ میری گزارش ہے کہ آپ واپس جائیں تو یہ تجویز پیش کریں کہ جو لوگ اپنے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں انہیں یہاں لا کر یہ کنویں دکھائے جائیں۔ یہ خونچکاں منظر نئی نسل کے ان افراد کو خصوصاً دکھائے جائیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تاریخی عوامل کے بغیر بنا تھا۔ 1947ء کے بعد جنم لینے والی نسل کے افراد یہ کنویں دیکھ کر جان جائیں گے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے دارالامان پاکستان کیلئے کتنی قربانیاں دی تھیں اور وہ یہ بھی جان جائیں گے کہ اگر اس ملک پر آنچ آتی ہے تو تلواریں ایک بار پھر ہوا میں لہرائیں گی اور بہنوں کی چیخ و پکار اندھے کنوئوں میں دم توڑ دے گی‘‘۔ اس سندھی نوجوان نے کہا ’’یہ کنویں ان بدنیت دانشوروں کو بھی دکھائیں جو پاکستانی قوم کیلئے یہ کنویں دوبارہ کھودنا چاہتے ہیں‘‘۔ واپسی پر ہندو اور سکھ بچے ایک بار پھر ہماری بسوں کے گرد جمع ہو گئے اور معصوم نگاہوں سے ہمارے مغموم چہروں کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے ان میں سے تین چار سال کے ایک پیارے سے بچے کو گود میں اٹھایا اور اسکے گالوں پر بوسہ دیتے ہوئے بزبانِ حال کہا ’’بیٹے! تم تو معصوم ہو، یہ کنویں بھی معصوموں کی لاشوں سے پٹے ہوئے ہیں۔ اگر تاریک طوفانی راتوں میں تم ان کنوئوں سے چیخیں سنو تو ان پر کان ضرور دھرنا۔ ہم یہ امانتیں تمہارے بڑوں کے بجائے تمہارے سپرد کر رہے ہیں کہ بچے اس دنیا میں خدا کے سفیر ہوتے ہیں!‘‘
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ