جمرود میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف خاص طور سے جس غصہ کا اظہار کیا ہے اور جس طرح آصف زرداری کو جیل جانے کی دھمکی دی ہے، اس سے حکومت کے مستحکم ہونے سے زیادہ اس کی کمزوری اور پریشانی عیاں ہوئی ہے۔ حالات پر کنٹرول رکھنے والا کوئی بھی لیڈر سیاسی بیان بازی میں آپے سے باہر نہیں ہوتا۔
عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد سے اپوزیشن کو کنٹینر فراہم کرنے اور اسلام آباد کے ڈی گراؤنڈ پر دھرنا دینے کی ’پیش کش‘ کرتے رہے ہیں ۔ کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ اپوزیشن اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس لئے ان کی حکومت کے خلاف کسی بڑے عوامی احتجاج کا کوئی امکان نہیں ۔ تاہم سات ماہ تک حکومت کرنے کے بعد بھی اگر عمران خان خود کو بدستور انتخابی ہتھکنڈوں کا سہارا لینے پر مجبور پاتے ہیں تو یہ اپوزیشن کی صلاحیت کے بارے میں ان کے اندازوں سے زیادہ، ان کی اپنی کمزوری کا اشارہ ہے۔ ان چند ماہ میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چکا ہے۔ عرب ملکوں کے’ کامیاب‘ دورے کرنے کے بعد اگرچہ قابل قدر مالی امداد حاصل کی گئی ہے لیکن ملکی معیشت میں اس کے مثبت اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔ اس کی جزوی ذمہ دار عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو قبول کرنی چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے کوئی معقول انسان کسی معجزے کی امید نہیں کررہا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بھی انہوں نے انتخابات کے دوران اختیار کیا جانے والا مقبول لب و لہجہ ترک نہیں کیا۔ معیشت کومنظم کرنے اور ادائیگیوں کا خسارہ کم کرنے کے لئے اقتصادی سوجھ بوجھ اور منصوبہ بندی کے علاوہ جس سیاسی تحمل اور بردباری کی ضرورت تھی، پارٹی کی قیادت اب تک اس کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی۔
یہی وجہ ہے کہ عرب ملکوں سے ملنے والی عبوری امداد کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے گئے، اسے آئی ایم ایف کا متبادل قرار دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی عوام دشمن شرائط کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ سستی سیاسی شہرت کے ہتھکنڈے کے طور پر یہ بتایا گیا کہ عمران خان نے متبادل مالی وسائل کا انتظام کرکے آئی ایم ایف کو صاف بتا دیا ہے کہ نئے پاکستان کی عوام دوست حکومت اس کی شرائط قبول نہیں کرسکتی۔ ایک موقع پر عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اب شاید ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ لیکن یہ بات درست ثابت نہیں ہو سکی۔ سچائی یہی تھی کہ اسد عمر درپردہ ملکی معیشت کو ٹیکسوں میں اضافے، گیس، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں کی سبسڈی میں کمی کرکے انہیں مہنگا کرتے ہوئے، عوام پر مالی بوجھ بڑھانے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ پاکستانی عوام متعدد بار آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ رہنے کی وجہ سے، ان تمام سرکاری اشاریوں کو سمجھتے ہیں جو عالمی مالی اداروں کی طرف سے مدد دینے کے لئے عائد کئے جاتے ہیں۔
حکومت کے مالی اقدامات ملک میں بے یقینی اور عدم اعتماد کے علاوہ سیاسی انتقام کے ماحول کی وجہ سے بارآور نہیں ہوسکے۔ اس صورت حال کو سمجھنے اور اپنے رویہ کو تبدیل کرتے ہوئے کسی نہ کسی سطح پر اپوزیشن کے ساتھ سیاسی مفاہمت اور تعاون کی صورت پیدا کرنے کی بجائے حکومت نے مناسب سمجھا کہ اپوزیشن کو لتاڑنے کے ساتھ آئی ایم ایف کو بھی ’ولن‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیر خزانہ اور وزیر اعظم نے اس حکمت عملی کو اپناتے ہوئے یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ عوام کو ان وجوہات سے بھی آگاہ کردیا جائے جن کی وجہ سے آئی ایم ایف برا ادارہ ہے یا اس سے مالی پیکیج لینا عوام کے مفادات کے برعکس ہو سکتا ہے۔
ایک طرف بیانات کے جوش میں ایک متنازع اور اشتعال انگیز تاثر پیدا کیا گیا لیکن اس دوران حکومت مسلسل آئی ایم ایف سے مالی پیکیج لینے کے لئے مذاکرات بھی کرتی رہی ہے ۔ عوام کو ملک کی اصل معاشی صورت حال سے آگاہ کرنے کی بجائے، یہ خیال عام کیا گیا کہ حکومت آئی ایم ایف سے اپنی مرضی کی شرائط پر قرضہ لے کر عوام کو ریلیف دے گی۔ حالانکہ کوئی قرضہ خواہ وہ کسی عالمی مالیاتی ادارے کا ہو یا دوست ملکوں کی طرف سے لیا جائے، کسی ملک کے عوام کو فوری طور پر معاشی ریلیف فراہم نہیں کرتا۔ کیوں کہ یہ قرضے معاشی استحکام پیدا کرکے طویل المدت منصوبو ں کے ذریعے پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں ۔ لیکن بد قسمتی سے حکومتی عہدیداروں کے جوشیلے بیانات اور عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی کی وجہ سے عرب ملکوں سے ملنے والے فوری اقتصادی ریلیف سے استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ معیشت کو جس استحکام اور مالی منڈیوں کو جس اعتماد کی ضرورت تھی، اسے سیاسی بیان بازی کے ذریعے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا نہیں رکھی گئی۔
اسی طرح پلوامہ سانحہ کے بعد فروری کے آخر میں پاک بھارت تنازعہ اور فضائی جھڑپ کے نتیجہ میں حکومت کو ہمدردی اور تعاون کی جو فضا نصیب ہوئی تھی، اسے بھی ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی اعتماد پیدا کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکا۔ حالانکہ حکومت کے چھے ماہ پورے ہونے کے بعد اس کی کارکردگی کے بارے میں سخت سوالات کا سامنے آنا فطری تھا۔ تاہم پہلے پلوامہ سانحہ کے بعد بھارتی حکومت کا پاکستان کے بارے میں جارحانہ لب و لہجہ اور اس کے بعد پاکستان میں فضائی حملہ کی کوشش اور فضائی جھڑپ میں ہزیمت کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان کو دھمکیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کا نشانہ بنا نا شروع کردیا۔ جس کی وجہ ملک میں قومی ہم آہنگی کی کیفیت پیدا ہوئی اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے بھی حکومت اور افواج پاکستان کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہو کر اس تاثر کو زائل کی کہ پاکستان میں کوئی تفریق موجود ہے یا دشمن سیاسی چپقلش کی وجہ سے پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کر نے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
حکومت ہمدردی اور اشتراک کے اس ماحول کو بھی مثبت طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس دوران کوئی ٹھوس اقتصادی اقدامات بھی سامنے نہیں آسکے ۔ قومی احتساب بیورو کے یک طرفہ اور جارحانہ اقدامات کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ پہلے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا، اب پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی بدستور نیب کی حراست میں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے متعدد لیڈروں کو بھی تسلسل سے گرفتار یا ہراساں کیا جارہا ہے۔ حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف حکومت نیب کی خود مختاری کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے لیکن دوسری طرف اپوزیشن مخالفین کو چور، لٹیرے اور بدعنوان کہتے ہوئے جیل بھیجنے کی دھمکیاں بھی دیتی ہے۔ اسی کا مظاہرہ آج عمران خان نے جمرود میں کیا ہے۔
یہ درست ہے کہ گزشتہ شب گڑھی خدا بخش میں ذولفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی کے موقع پر تقریریں کرتے ہوئے بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا لب و لہجہ غیر معمولی طور پر جارحانہ تھا۔ اگر اس کی وجہ نیب کی طرف سے پیپلز پارٹی اور خاص طور سے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے علاوہ چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کو ہراساں و پریشان کرنے کے ہتھکنڈے بھی ہوں تو بھی عمران خان کو ردعمل میں جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اب اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر احتساب کے لئے قائم ادارے ’خود مختاری ‘ سے اپنا کام کررہے ہیں تو وزیر اعظم اور ان کے چہیتے وزیروں کو یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون کون اپوزیشن لیڈر جیل میں جانے والا ہے؟ اس رویہ اور بیان بازی سے اپوزیشن کی کمزوری سے زیادہ عمران خان کے عدم تحفظ کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور ان کے مخالفین کے علاوہ ان کے ہمدرد اور انتخابات میں انہیں ووٹ دینے والے بھی یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ کیا واقعی معاملات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہورہے ہیں ۔ کیا واقعی ماضی کی تاریخ دہرائی جانے والی ہے کہ کسی بھی وزیر اعظم کو اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اور کیا نئے پاکستان کا کھیل اب اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔
وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں نے تواتر سے این آار او نہ دینے کا اعلان کرکے عام لوگوں کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ حکومت کسی نہ کسی طرح اہم اپوزیشن لیڈروں(جن میں نواز شریف اور آصف زرادری سر فہرست ہیں) سے کوئی ’ڈیل‘ کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ تحریک انصاف کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔ اسی طرح مخالفین کو کیفر کردار تک پہنچانے اور جیل بھیجنے کی دھمکیاں دے کر وزیر اعظم یہ تاثر قوی کرتے ہیں کہ انہیں اپنے اقتدار کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ ورنہ جو دھرنا عمران خان نے 2014 میں دیا تھا، وہ عوام کے حق حکمرانی سے زیادہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کو عضو معطل بنانے کا سبب بنا تھا۔ اس دھرنا کو کامیاب بنانے کے لئے علامہ طاہر القادری کی صورت میں جو ’غیبی امداد‘ فراہم کی گئی تھی، اس کے بغیر تحریک انصاف کا دھرنا ایک ایسا مذاق بن جاتا کہ عمران خان کے لئے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنا تو کیا، تحریک انصاف کی قیادت پر اپنی گرفت قائم رکھنا بھی ممکن نہ رہتا۔ دھرنے اور احتجاج کسی بھی حکومت کے لئے سود مند نہیں ہوسکتے۔ جب دھرنوں کی نوبت آئے گی تو عمران خان کو کنٹینر اور کھانا فراہم کرنے کے دعوے بھول جائیں گے۔
ملک اس وقت جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اس میں دھرنا اور احتجاج کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس لئے بلاول بھٹو زرداری سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت کو ’لات مار کر گرانے‘ کی کوشش نہ کریں اور عمران خان سے دست بستہ گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ مخالفین کو جیلوں میں بھیجنے کا ارادہ ترک کر دیں۔ بہتر ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہونے کی بجائے، ایک دوسرے کا سہارا بنیں تاکہ ملکی معیشت کو واپس پٹری پر ڈالا جا سکے۔
عمران خان کو جان لینا چاہئے کہ اگر ان کی حکومت معاشی طور سے کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہوئی تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اقتدار پر ان کی گرفت کمزور ہونے سے نہیں روک سکے گی۔ انہیں اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کی بجائے معاشی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے ورنہ ان کے شبہات حقیقت میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ