مجھے اجازت دیں کہ میں آج ماہنامہ ’’شگوفہ‘‘ حیدرآباد دکن کے ایڈیٹر ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال کو مبارکباد کہوں کہ وہ آج کے دور میں طنز و مزاح پر مشتمل یہ جریدہ کئی عشروں سے پوری باقاعدگی اور معیار پر سمجھوتا کئے بغیر نکال رہے ہیں۔ان دنوں طنزومزاح لکھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں، چنانچہ پاکستان میں طنزومزاح کا جریدہ شائع کرنے کی بہت کوششیں ہوئیں مگر کچھ ہی عرصے بعد ان ’’مہم جوئوں ‘‘کو توبہ تائب کرنا پڑی،البتہ میرے برادر بزرگ ضیاءالحق قاسمی مرحوم و مغفور نے اپنا یہ مشن آخر دم تک جاری رکھا۔میں ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال کے علاوہ پیر رومی کے محقق و نقاد جناب فضل جاوید کو بھی سیلوٹ کرتا ہوں۔جنہوں نے مزاح کی اس صنف پر گراں قدر کام کیا، چنانچہ ’’شگوفہ‘‘ کا تازہ شمارہ فضل جاوید کی محنتوں اور کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شگوفہ کے اس شمارے میں پیروڈی کے موضوع پر مضامین کے علاوہ ممتاز شاعروں کی مشہور نظموں کی پیروڈی بھی نامور شاعروں نے کی ہے۔ ان پیروڈی نگاروں میں جوش، ملیح آبادی، چراغ حسن حسرت، کنہیالال کپور،شوکت تھانوی، مجید لاہوری، دلاور فگار، سید محمد جعفری، علامہ حسین میر کاشمیری، ساجد مہدی علی خان، سید ضمیرجعفری،عاشق محمد غوری،اسلم کماوی اور دیگرنامور شعراءشامل ہیں۔ میں نے یہ پیروڈیز پڑھیں، سب کی سب ایک سے بڑھ کر ایک تھیں تاہم نمونے کے طور پر میں راجہ مہدی علی خان کی چند ایک پیروڈیز کی لذت میں اپنے قارئین کو شریک کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
غالب ریستوران میں ایک اینگلو انڈین حسینہ کے ساتھ
ہے گال پہ اس تل کے سوا ایک نشاں اور
تم کچھ بھی کہو ہم کو گزرتا ہے گماں اور
تم کہتی ہو انگلش میں محبت کا کرو بات
آتی نہیں اردو کے سوا مجھ کو زباں اور
سعدی کی زباں ہی میں کچھ ارشاد کروں میں
ڈر ہے کہ یہ گزرے نہ کہیں تجھ کو گراں اور
یارب یہ نہ سمجھی ہے نہ سمجھے گی مری بات
ملک اور دے اس کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
کب سے ہم ادھر بیٹھا ہے ائے بوائے ادھر آؤ
لیمن کے سوا بھی ہے کوئی چیز یہاں اور
لے آؤ وہ شے جلدی سے اب ورنہ یہ سن لو
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
گر حکم ہو میڈم تو میں منگواؤں مٹن چاپ
کہہ دینا اگر چاہئے دل اور زباں اور
دل اور زباں کر لا فرائی ارے بہرہ
دل اور دے اس کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ بل کتنا ہی بڑھ جائے
تو بوائے سے لیکن یہ کہے جائے کہ ہاں اور
تانگہ بھی میرے پاس ہے ٹم ٹم بھی میرے پاس
ہوٹل کے علاوہ تجھے لے جائوں کہاں اور
پاتے نہیں جب راہ تو رک جاتے ہیں تانگے
اف دیکھ کے پبلک تجھے ہوتی ہے رواں اور
کالوں کو بھگاتا ہوں تو آ جاتے ہیں گورے
تم ہو تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
ٹانگوں پہ ہیں کوڑوں کے نشاں، پیٹھ پہ ہیں نیل
ہر روز دکھاتی ہے تو اک داغِ نہاں اور
تو بھاگ گئی سیج سے گر ہاتھ چھڑا کر
لے آئیں گے بازار سے اک حور جناں اور
اے جانِ تمنا تجھے اک دوں گا میں گھونسہ
ہنگامِ شب وصل جو کی آہ و فغاں اور
………………
غالب باٹا شو کمپنی میں سیلز مین
کبھی تیرے نقش قدم دیکھتے ہیں
کبھی تیری چپل کو ہم دیکھتے ہیں
ترے سر و قامت سے چھ فٹ کم از کم
قیامت کے فتنے گو کم دیکھتے ہیں
بھلا کیسے لیں گے وہ چپل کی قیمت
جو تیری طرف دم بہ دم دیکھتے ہیں
جنہوں نے نہ سجدہ کیا تھا خدا کو
تجھے ہو کے وہ سر بہ خم دیکھتے ہیں
یہ مہندی رچا پاؤں چپل میں رکھ دے
ذرا آج اسے چھو کے ہم دیکھتے ہیں
بنا کر چماروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
………………
غالب کے گھر کے سامنے رشتہ کی بات چیت
حشمت آرا سے کہیں میرا کمال اچھا ہے
مت کہو مجھ سے کہ خورشید جمال اچھا ہے
رشتہ کرتی نہیں اور پیسے پہ ہر لحظہ نگہہ
جی میں کہتی ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
دیکھ مر جائیں گے ہم اتنا چڑھاوا مت مانگ
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
تیرے آتے ہی جو پک جاتا ہے گھر میں کھانا
تو سمجھتی ہے کہ نادار کا حال اچھا ہے
جیب کترا بہت اچھا ہے ہمارا لڑکا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
میرے گھر میں تری لڑکی کا مال اچھا ہے
گھونسلہ آ کے بنا لے تیری ننھی قمری
اس سے کہہ دے کہ چمن میں یہ نہال اچھا ہے
رشتہ کرنے میں نہ اب دیر لگا اے ظالم
اک برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے تم سب کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو اچھا ہے، خیال اچھا ہے
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ