بہت عرصہ پہلے میں نے ایک صاحب اصغر بن ابراہیم کا ایک مضمون ”شریف خواتین تغزل کی غلط روش کیخلاف آواز اٹھائیں“ کے عنوان سے پڑھا اور دل کو ٹھنڈ پڑگئی، سو اس پر میں نے ایک کالم لکھا، دراصل شاعری میں غزل کی صنف خود مجھے بری طرح کھٹکا کرتی تھی، کیونکہ اس میں نہ صرف خواتین کے حسن و جمال کے تذکرے ہوتے تھے، بلکہ غزل کے شاعروں نے تو پردہ دار بیبیوں تک کو نہیں بخشا اور اس طرح کے شعر کہے کہ:
داورِ حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ!
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
چنانچہ میں دعا کیا کرتا تھا کہ یا خدا کوئی ایسا بندہ بھیج جو ان شعراء کا ”مکو“ ٹھپے۔ سو خدا نے میری سنی اور اصغر بن ابراہیم نامی ایک شخص کو یہ توفیق دی کہ وہ ساری کلاسیکی اور آج کی غزل پر جھاڑو پھیریں اور یوں شاعری کے صحن کی صفائی کریں۔ موصوف نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ”بلاشبہ غزل دائرہ اسلام سے خارج ہے“ نیز یہ کہ ”یہ تغزل ہی کا نتیجہ ہے کہ عورتیں اپنی تعریف سننے کیلئے بے پردگی کی طرف مائل ہو رہی ہیں“ چنانچہ اصغر بن ابراہیم صاحب نے ”نیک سیرت عورتوں کا دینی فریضہ“ یہ بتایا کہ وہ تغزل کی اس غلط روش کیخلاف آواز اٹھائیں ”موصوف کے اس نقطہ نظر سے کسی صاحب کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ چونکہ انہیں خود شعر کہنا نہیں آتا لہٰذا انہوں نے تمام شاعروں کیلئے اسے حرام قرار دیدیا ہے، کیونکہ انہوں نے مضمون کے شروع ہی میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ وہ کبھی شعر کہا کرتے تھے مگر احسان دانش (مرحوم ) اور جناب عبد الکریم ثمر(مرحوم) نے انہیں ایک خاص نصیحت فرمائی کہ فنِ شاعری میں اصلاح کی نسبت مجھے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس بات پر زور دیتے ہوئے یہ بھی نشاندہی کی کہ اگر مطالعہ خوب ہو جائے تو مجھے شعر گوئی میں کوئی خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا!“ ان صاحبانِ فن کا اشارہ غالباً اس طرف تھا کہ وہ کلاسیکی شاعری کا مطالعہ کریں، مگر اس کے بجائے اُنہوں نے شاعری کے عدم جواز کیلئے شرعی دلائل ڈھونڈنے کی خاطر مطالعے کا آغاز کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگرچہ قرآن و حدیث میں شاعری کی واضح ممانعت نہیں ہے، تاہم یہ جو غزل کی صنف ہے یہ بہرحال دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ خود مجھے بھی غزل کی یہ صنف زہر لگتی ہے کیونکہ اس میں صنفِ نازک کے حسن و جمال کا بیان ہوتا ہے بلکہ اُس کی آڑ میں جو گُل کھلائے جاتے ہیں وہ بھی میرے علم میں ہیں۔ میرے ایک شاعر دوست جو زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی خاتون کے ساتھ سینما ہال میں دیکھے گئے، چنانچہ رپورٹ ہونے پر ان کی پیشی جمعیت کی ہائی کمان کے سامنے ہوئی اور کہا گیا ”ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ گزشتہ روز ایک بہن کے ساتھ فلم دیکھتے پائے گئے ہیں“۔ ہمارے دوست نے اُس کے جواب میں اپنی صفائی پیش کی اور کہا ”جناب ہماری ایک عزیزہ فیصل آباد سے آئی تھی، وہ فلم دیکھنا چاہتی تھیں، چنانچہ گھر والوں کی ہدایت پر میں اُنہیں فلم دکھانے چلا گیا تھا!“ یہ سن کر انہوں نے کہا ”ٹھیک ہے مگر جماعت کا نظم بھی کوئی چیز ہے!“۔ اس پر میرے دوست نے کہا ”نظم اپنی جگہ، مگر آخر غزل بھی کوئی چیز ہے“۔ خیر یہ تو یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی طفلانہ شوخی تھی مگر غزل کا شاعر خواہ باریش ہو اور عمر کی کسی بھی اسٹیج پر ہو حسن و جمال سے منہ نہیں موڑتا۔ اب اپنے مولانا حسرت موہانی ہی کو دیکھیں، برصغیر کے مسلمانوں کے چوٹی کے رہنماؤں میں سے ہیں، شرعی حلیہ، شرعی وضع قطع، پابند صوم و صلوٰۃ، متقی اور پارسا، باقاعدگی سے گیارہویں شریف دینے والے مگر جب غزل کہتے تھے تو:
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
اور:
دکھتی رہی جو ان کی کلائی تمام شب
قسم کی غزلیں کہتے تھے چنانچہ ایک بار مولانا سے پوچھا گیا کہ غزل میں تین رنگ ہوتے ہیں ایک فلسفیانہ، ایک عاشقانہ اور ایک فاسقانہ آپ کس انداز کی غزل کہتے ہیں؟ مولانا نے اپنی مخصوص باریک سی آواز میں جواب دیا ”فاسقانہ!“ اور اس رنگ سخن کی جھلک تو کہیں کہیں مولانا ماہر القادری (مرحوم) اور مولانا نعیم صدیقی (مرحوم) کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے یہ بھی یاد آیا تھا کہ ادھر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یعنی غزل پر کیا منحصر ہے، اردو اور فارسی کی بیشتر شاعری اصغر بن ابراہیم اور ہمارے قائم کردہ اخلاقی معیار کے لحاظ سے دریا برد کرنے کے قابل ہے اور اکیلے مولانا حسرت موہانی کا کیا ذکر، ادھر تو بڑے بڑے علماء، صلحا، صوفیا اور اولیاء نے بھی شعروں میں ایسی ایسی باتیں کہی ہیں کہ میرے اور اصغر بن ابراہیم جیسے چھوٹی موٹی لوگوں کے کانوں کی لویں سرخ جاتی ہیں، چنانچہ حضرت امیر خسرو، مولانا روم اور شیخ سعدی جیسے اکابرین کی کئی چیزیں ان دنوں ہمیں لحاف میں چھپا کر پڑھنا پڑتی ہیں۔
اس کالم کا مقصود صرف اصغر بن ابراہیم کو اپنی حمایت کا یقین دلانا تھا اور ان کی ہمت بندھانی تھی کہ وہ غزل کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں تاکہ باقی شریف خواتین بھی ان کی ہمنوائی میں تغزل کے خلاف آواز اٹھائیں، البتہ میں نے اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ کا ذکر کیا اور وہ ماضی اور حال میں انتہا درجے کی شریف خواتین خود غزل کہتی رہی ہیں مثلاً اورنگ زیب عالمگیر کی ایک پردہ نشین بیٹی زیب النساء غزل کی نہایت خوبصورت شاعرہ تھیں۔ میر کی صاحبزادی غزل کہتی تھیں اور اس کے بعد ادا جعفری تک کتنی ہی نیک اور شریف بیبیاں غزل کہتی رہی ہیں، سو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تحریک کی مخالفت سب سے پہلے شریف بہو بیٹیوں کی طرف سے ہو اگر ایسا ہوا تو بھی میں اصغر بن ابراہیم کے ساتھ ہوں گا وہ فکر نہ کریں۔ (قندمکرر)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)