وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کے متعدد آڈیو کلپس عام ہونے کے بعد قومی سیکورٹی کمیٹی نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ وزارت داخلہ سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی ریکارڈنگ کو سوشل میڈیا پر نشر کرنے کے حوالے سے قانونی ڈھانچہ تیار کرے تاکہ سائیبر سیکورٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔ گویا قومی سلامتی کے سب سے بڑے فورم پر پرائم منسٹر ہاؤس کی سیکورٹی سے زیادہ اس بات پر پریشانی سامنے آئی کہ لیک ہونے والے آڈیو زکو منظر عام پر لانے اور پھیلانے والوں پر کیسے گرفت کی جائے۔
یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال ہے جس میں اصل مسئلہ کو نظر انداز کرکے ، محض تشہیر روکنے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اب وزیر اعظم ہاؤس کو ’محفوظ‘ بنانے کے لئے اقدامات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ ایسے سرکاری بیانات مبہم اور غیر واضح ہوتے ہیں ، اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں سرکاری عہدیداروں کی گفتگو ریکارڈ کرنے اور مناسب وقت آنے پر انہیں عام کرنے کے طریقہ کار کو کیسے کنٹرول کیا جاسکے گا۔
قومی سیکورٹی کمیٹی، ملک میں سلامتی سے متعلق امور کی نگرانی کا سب سے اہم ادارہ ہے جس کی صدارت وزیر اعظم کرتے ہیں اور اس میں متعدد اہم وزرا کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہان اور اعلیٰ سرکاری افسر شامل ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں متعدد ایسے آڈیو سامنے آئے تھے جن میں وزیر اعظم شہباز شریف کو سرکاری افسروں کے علاوہ دیگر وزرا اور پارٹی لیڈروں سے گفتگو کرتے سنا جاسکتا ہے۔ حکومت وقت کے لئے بلاشبہ یہ ایک پریشان کن صورت حال تھی اور دو روز تک تو اس معاملہ پر خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ جب یہ یقین ہوگیا کہ ان آڈیوز میں کوئی سنسنی خیز بات نہیں ہے اور کسی گفتگو سے ملکی قیادت کی سیاسی گرفت نہیں ہوسکتی ، تب ہی مختلف وزرا نے آڈیو لیکس پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس دوران سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں عمران خان کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ کس طرح امریکہ سے آنے والے سفارتی مراسلے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کسی کا نام نہیں لینا بلکہ صرف اس سے کھیلنا ہے‘۔
حیرت انگیز طور پر موجودہ حکومت کے علاوہ سابق وزیر اعظم نے بھی اس معاملہ کو قومی سلامتی کے تناظر میں اہم سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کے آڈیوز کے کمزور پہلوؤں کو تلاش کرنے اور ان پر سیاسی الزام تراشی کا طومار باندھنے کی کوشش کی۔ یوں ملک کی اعلیٰ ترین قیادت نے اس گمان کو تقویت دی ہے کہ انہیں ایسی پراسرا ر اور قومی مفاد کے لئے مہلک سرگرمی سے کوئی غرض نہیں ہے لیکن وہ یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ غیر قانونی طور سے ریکارڈ کی گئی ان آڈیو کلپس میں کس نے کیا کہا اور کسے کب، کس کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ قومی سلامتی کے جس پہلو پر ملکی قومی قیادت کو سلامتی کے علاوہ سیاسی سرگرمی میں در اندازی کے نقطہ نظر سے تشویش میں مبتلا ہونا چاہئے تھا، اس پر محض پوائینٹ اسکورنگ کی حد تک رد عمل دیا جارہا ہے۔ کچھ باتیں تو ان آڈیو لیکس میں شامل ہیں لیکن ان میں مسالہ ملا کر انہیں مزید اشتعال انگیز بنانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس سے ابتدائی آڈیو لیکس میں چونکہ صرف موجودہ قیادت اور سیاسی لیڈروں کی باتیں تھیں تو ان پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف نے ضرور یہ اصولی مؤقف اختیار کیا تھا کہ لیکس درحقیقت قومی سلامتی کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ اگر ملک کے وزیر اعظم کا سیکریٹریٹ بھی بیرونی مداخلت سے محفوظ نہیں ہے تو پھر کون سی جگہ کو دست برد سے مامون سمجھا جائے۔ تحریک انصاف کی طرف سے آڈیو لیکس میں موجودہ قیادت کی کج روی تلاش کرنے کے علاوہ ، اسے قومی سیکورٹی کا سوال بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی بھی کی گئی۔ یہ جائز اور قابل غور تشویش تھی لیکن حکومت نے اس پریشانی کو کوئی خاص توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ البتہ خود اپنے سیاسی مفادات کو لاحق خطرہ ٹالنے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ضرور طلب کیا گیا جس نے بدھ کو اس اہم معاملہ پر غور کے بعد اسے ایک کمیٹی قائم کرکے نمٹا دیا۔ حالانکہ قومی سلامتی کمیٹی سے اس کوتاہی پر ذمہ داروں کا تعین کرنے کی امید کی جانی چاہئے تھی۔ کوئی ایسا ادارہ جس میں ملک کی اعلیٰ ترین سول و عسکری قیادت جمع ہو جو اپنے اپنے طور پر اہم وزارتوں اور اداروں کی سربراہی بھی کررہے ہوں ، اگر وہ بھی وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی پامال کرنے والے عناصر کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہ لاسکیں تو قومی حفاظت کے بارے میں عوام کو اندیشہ ہونا چاہئے۔
حیرت انگیز طور پر موجودہ وزیر اعظم کی گفتگو عام ہونے کے بعد اپوزیشن تحریک انصاف نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے علاوہ قومی سلامتی کی بات ضرور کی لیکن ان تبصروں میں ایک طرح کی طمانیت بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایم ہاؤس کی سیکورٹی پر بات کرنے کے باوجود سابق وزیر اطلاعات یہ معلومات بھی فراہم کرتے رہے کہ بلیک سائیبر مارکیٹ میں ابھی کئی گھنٹے طویل گفتگو کے آڈیو کلپس برائے فروخت دستیاب ہیں جو وقت کے ساتھ سامنے آسکتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے ایک ایسی آڈیو ریکارڈنگ کا ’انکشاف‘ بھی کردیا جس میں ان کے بقول چیف الیکشن کمشنر سکند سلطان راجہ ، شریف خاندان کو یقین دلا رہے ہیں کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل قرار دیاجائے گا۔ اس نام نہاد آڈیو گفتگو کی بنیاد پر عمران خان نے ایک بار پھر چیف الیکشن کمشنر کو شریف خاندان کا ’ایجنٹ‘ قرار دیتے ہوئے، ان سے استعفی دینے کا مطالبہ کردیا۔ الیکشن کمیشن نے فوری طور سے ایسے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔
ابھی یک طرفہ الزام تراشی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ عمران خان کی اعظم خان سے ہونے والی گفتگو سامنے آگئی۔ عمران خان نے فوری طور سے شہباز شریف حکومت پر یہ آڈیو ریکارڈنگ عام کرنے کا الزام لگایا اور اسے ’نامزد حکومت‘ کی سازش سے تعبیر کیا۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ’وہ تو ابھی اس معاملہ میں کھیلے ہی نہیں ہیں، کھیل تو اب شروع ہوگا‘۔ غور کیا جائے تو یہ افسوسناک صورت سامنے آتی ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم اس بات پر پریشان نہیں ہے کہ اس کی اپنے ہی پرنسپل سیکرٹری سے ہونے والی گفتگو منظر عام پر آگئی ہے ۔ اور وہ کون سے عناصر ہیں جو وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو یا فون کالز ریکارڈ کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر عام کرکے کوئی درپردہ یا معلوم مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ امر عمران خان کے لئے یوں بھی پریشانی کا سبب ہونا چاہئے تھا کہ ان کی اپنی آڈیو سامنے آنے کے بعد یہ بھی واضح ہؤا تھا کہ پی ایم ہاؤس میں ریکارڈنگ موجودہ حکومت کی نااہلی کا معاملہ نہیں تھا بلکہ ہر دور میں بعض عناصر سیاسی قیادت کے کنٹرول ونگرانی کو اپنی ’قومی ذمہ داری‘ سمجھتے رہے ہیں۔ یوں بھی عمران خان تو ایک بار پھر منتخب ہوکر وزیر اعظم ہاؤس میں واپس جانے کی تگ و دو کررہے ہیں، اس لئے انہیں خاص طور سے اس رہائش گاہ و دفتر کی سیکورٹی کے حوالے سے تشویش ہونی چاہئے۔ تاہم موجودہ سیاسی تصادم کی صورت حال میں ان کے لئے یہی کافی ہے کہ کس طرح اس پر سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کی جائے اور ایک کمزور سیاسی مؤقف کی شرمندگی سے بچنے کے لئے جوابی حملہ کیا جائے۔ حالانکہ کیا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ایک شخص کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک خفیہ سفارتی مواصلت کو ’سیاست کھیلنے‘ کے لئے استعمال کرنے کا عندیہ دے رہا ہو؟
یہ سوال اپنی جگہ قابل غور ہونا چاہئے کہ موجودہ وزیر اعظم کی آڈیو لیکس کے بعد جب سیاسی گفتگو کا پلڑا ایک طرف جھکنے لگا تو یک بیک سابق وزیر اعظم کی گفتگو کی ریکارڈنگ پیش کردی گئی۔ کیا اسے محض اتفاق سمجھا جائے کہ غیر قانونی ’ہیکرز‘ کے ہاتھ جب کچھ لگا، انہوں نے چند ڈالر کمانے کے لئے اسے عام کردیا یا اسے قومی سیاست، سلامتی اور نگرانی کے نظام کا ایک سوچا سمجھا اور مخصوص پیٹرن سمجھا جائے؟ اگر یہ طریقہ کار ہمارے قومی ان نظام کا حصہ بنا ہؤا ہے تو اس انتظام کے درپردہ کون سے عناصر ہیں کہ جن کی دسترس سے ملک کا کوئی بھی وزیر اعظم محفوظ نہیں ہے۔ اگر وزیر اعظم کے دفتر میں ہونے والی بات چیت خفیہ طور سے ریکارڈ کی جاسکتی ہے اور ملک کی اعلیٰ ترین عسکری قیادت اور انٹیلی جنس ادارے بھی اس پر کوئی روشنی ڈالنے پر آمادہ نہیں ہیں تو اس ملک میں کون محفوظ ہوگا۔ کیا ججوں اور دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی گفتگو اور فون ریکارڈ نہیں ہوتے ہوں گے؟ اس حوالے سے سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا اس طریقہ کو ’قومی مجبوری‘ سمجھ کر قبول کیا جارہا ہے یا ریاست پاکستان اتنی بے بس و مجبور ہے کہ وہ ایسی کوتاہی کا قلع قمع کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے جاننا چاہئے کہ ٹیکنالو جی کی تمام تر ترقی کے باوجود ایسی اعلیٰ سطح پر ’جاسوسی نما ریکارڈنگ‘ کرنے کے لئے بہر حال ریاستی انتظام درکار ہوتا ہے جو ایک طرف اس نگرانی کی سہولت فراہم کرتا ہے پھر اس کام میں ملوث عناصر کی حفاظت کرتا ہے۔ حتی کہ وزیر اعظم کی نگرانی میں قائم قومی سلامتی کمیٹی بھی مزید ایک کمیٹی بنانے پر اکتفا کرنا کافی سمجھتی ہے۔ یہ کام یا تو دشمن ممالک کے عناصر کرسکتے ہیں یا پھر ریاست پاکستان میں نام نہاد ریاست کے اندر ریاست کے ہرکارے اس حد تک مضبوط و توانا ہوچکے ہیں کہ وہ مسلسل مصروف عمل ہیں اور انہیں کسی سرزنش کا اندیشہ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں رانا ثناللہ کے زیر صدارت کمیٹی کس ’چور‘ کا سراغ لگائے گی؟
تاہم معاملہ کے اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی دشمن ملک ، پاکستان کے اعلیٰ ترین مراکز کی نگرانی کررہا ہے۔ اگر یہ اندیشہ درست ہے تو جان لینا چاہئے کہ قومی سلامتی کی حفاظت کے سارے دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ قوم کو کم از کم یہ تو بتا دیا جائے کہ یہ ’مقدس کام‘ ملک کے اندر ہی سے انجام دیا جارہا ہے یا قومی مفادات کو کسی بیرونی نگرانی میں دے دیا گیا ہے اور اس پر کوئی بڑی پریشانی بھی دیکھنے میں نہیں آتی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ