سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت کی ترویج اور ملتانی آم کی طرح میٹھی سرائیکی زبان کے فروغ کیلئے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ مادر علمی اس خطے کی علمی و ادبی ضروریات کی فراہمی میں ایک امتیازی حیثیت حاصل کر چکی ہے اور یہاں سے علم و عرفان کے چشمے تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھا رہے ہیں۔ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر ابتداءمیں ایک ریسرچ سنٹر کی حیثیت سے قائم ہوا لیکن قلیل عرصے میں ہی اسے مکمل شعبہ کی حیثیت مل گئی۔
2010 میں محسن ملتان اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہدایت پر ایک ثقافتی سنٹر بنایا گیا جس کا مقصد جنوبی پنجاب کی تاریخ و ثقافت کو محفوظ کرنا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اس کی ترویج و ترقی بھی تھا۔ ان کا باقاعدہ افتتاح 22 جنوری 2010ءکو کیا گیا۔ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر ثقافتی میوزیم میں سرائیکی خطہ کی ہزاروں سال پرانی اشیائ، نوادرات اور روایتی دستکاریوں ، برتن اور فنون کے نمونے ہیں جو یہاں آنے والوں کی دلچسپی کی ایک اہم وجہ ہیں۔ آثار قدیمہ کے نقوش بھی خاصے پرکشش ہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آئے روز ثقافتی میوزیم کو دیکھنے آتے رہتے ہیں۔
اس شعبہ کے ڈائریکٹر ممتاز ادیب ڈاکٹر ممتاز کلیانی ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ یہ سنٹر سرائیکی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی شناخت کو پروان چڑھانے والا یونیورسٹی کا اہم شعبہ ہے جسے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی کا خصوصی تعاون بھی شامل ہے۔ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے فیکلٹی ممبران میں محترمہ نسیم اختر ، خالد اقبال، مہر اجمل ،محمد عارف، حافظ فیاض اور عمار یاسر شامل ہیں جو اپنی شبانہ روز محنت سے سنٹر کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ خالد اقبال ایک انشائیہ نگار ،ادیب اور ریڈیو پروڈیوسر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتیں منوا کر اب ڈیپوٹیشن پر سرائیکی ایریا سنٹر سے منسلک ہیں۔ خالد اقبال نے کالج کے زمانے میں راقم کے ساتھ مل کر تحریک نوائے طلباءکے پلیٹ فارم سے نوجوانوں کیلئے کئی فلاحی کام کئے ایک انعامی تحریری مقابلے میں سابق وائس چانسلر خواتین یونیورسٹی ڈاکٹر پروفیسر عصمت ناز نے پہلی اور ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر سرفراز خان نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ شام دوستاں آباد کے ذریعے بھی خالد اقبال نے ملتان کی ادبی محفلوں کو گرمائے رکھا اور اب انہوں نے اپنی صلاحیت اور محنت سے سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر اور ثقافتی میوزیم کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ ان کی دعوت پر راقم سمیت کئی اہل قلم اور دانش ور ثقافتی میوزیم کا دورہ کر چکے ہیں۔جہاں سرائیکی ثقافت کے نایاب اور نادر نمونے محفوظ کیے گئے ہیں آپ کی کاوشوں سے فیس بک اور سوشل میڈای پر بھی ثقافتی میوزیم اور سرائیکی اسٹڈی سنٹر کی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔
سنٹر میں آڈیو ویڈیو سٹوڈیو کے ذریعے علمی و ادبی شخصیات کے تعارف اور انٹرویو آن لائن ویب سائنٹس اور فیس بک پیج پر نشر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے طلباءو طالبات علمی مہارت کے ساتھ ساتھ اس خطے کے بزرگوں کی زبان ، تاریخ ثقافت اور موسیقی سے بھی متعارف ہو رہے ہیں۔ نامور شخصیات اور ادیبوں شاعروں کے انٹرویو آرکائیو لائبریری میں محفوظ بھی کیے جا رہے ہیں۔ سرائیکی خطے کے سیاحتی مقامات کو دنیا بھر میں نمایاں کرنے کیلئے ایک تحقیقی پراجیکٹ بھی شروع ہو چکا ہے اس میں پورے سرائیکی وسیب کے اہم سیاحتی مقامات کی ڈاکو منٹری بنائی جائے گی جس میں ان سیاحتی مقامات کی تاریخ اور ثقافت کو اجاگر کیا جائے گا یقینا سرائیکی سنٹر کا یہ اقدام لائق تحسین ہے۔
گزشتہ سال فیکلٹی ممبران کی کاوشوں سے ایم فل کی کلاسز بھی شروع کی گئیں تھیں۔ 18 طلبا و طالبات ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے بھی اہل ہو جائیں گے ۔ سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر اور اس خطے کیلئے یہ بھی ایک اعزاز کی بات ہے حال میں سرائیکی سنٹر کے ڈائریکٹر ممتاز کلیانی اور فیکلٹی رکن خالد اقبال کی دلچسپی سے ایک سہ ماہی میگزین ”نگال“ کا بھی اجرا کیا گیا ہے جس کے تین شمارے شائع ہو کر پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ ”نگال“ کا مطلب کنویں سے نکلنے والا شفاف پانی ہے اس سے قبل یونیورسٹی میگزین ”زلال“ جس کی ادارت کا اعزاز راقم کا حاصل ہے بھی شائع ہوا تھا اس کا مطلب بھی میٹھا اور صاف و شفاف پانی ہے۔
سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے زیر اہتمام کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی خوش آئندہ ہے۔ شمیم عارف قریشی، جہانگیر مخلص، محبوب دستی، رانا محبوب اختر اور عاشق بزدار کی کتب شائع ہو چکی ہیں امید ہے کہ مزید سرائیکی ادباءاور شعراءکی کتابوں کی اشاعت بھی کی جائے گی تاکہ اس خطے کی زبان و ثقافت کی ترویج و ترقی کیلئے مخصوص یہ سرائیکی ایریا سنٹر وسیب کی آواز بننے کا حق ادا کرے۔
سرائیکی سنٹر کے زیراہتمام طلباءو طالبات کیلئے توسیعی لیکچر کے ساتھ ساتھ دا غ مفارقت دے جانے والے اساتذہ اور ادیبوں کیلئے تعزیتی ریفرنس بھی منعقد کیے جاتے ہیں جبکہ اجرک ڈے بھی خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ امید ہے سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر اور ثقافتی مویزیم اہل قلم و دانش وروں اور اس شعبے کے فیکلٹی ممبران اور رئیس جامعہ ڈاکٹر پروفیسر اکبر کنڈی کی خصوصی دلچسپی سے اسی طرح وسیب میں اپنی شناخت قائم رکھے گا اور اس خطے کی ثقافتی و تاریخی ثقافت کو اجاگر کرنے میں اپنے چراغ کی روشنی اسی طرح بھلاتا رہے گا کہ
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
فیس بک کمینٹ