بلاشبہ یہ میرے لیے ایک اعزاز تھا کہ مجھے عدم تشدد کے علم بردار رہنما کی میزبانی اور ان کی صحبت نصیب ہوئی جس کی یادیں ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی گراں قدر خزینہ کی طرح اب بھی میرے ساتھ ہیں اور تازہ ہیں۔
یہ 1946ء کے اوائل کی بات ہے جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ابتدائی جماعت کا طالب علم تھا اور بچوں کی اقامت گاہ محمود منزل کا مانیٹر تھا۔ جامعہ سے بادشاہ خان کا دیرینہ تعلق تھا۔ وہ جب بھی دلی آتے وہ جامعہ ضرور آتے تھے۔ 1946ء میں جب وہ جامعہ آئے تو ان کے قیام کا انتظام محمود منزل میں بچوں کی اقامت گاہ میں کیا گیا تھا۔ مانیٹر کی حیثیت سے مجھے ان کی میزبانی پر مامور کیا گیا تھا۔ مجھے تعجب ہوا کیونکہ عبدالغفار خان کو محمود منزل سے کہیں زیادہ آرام دہ جگہ ٹھہرایا جاسکتا تھا لیکن مجھ بتایا گیا کہ باشاہ خان طلبا کی اقامت گاہ میں یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ طالب علم وہاں کیسے رہتے ہیں، ان کو کیا سہولتیں حاصل ہیں اور وہاں کیسا ماحول ہے۔
بادشاہ خان جب محمود منزل آئے تو طلبا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ملک کا ایک اہم رہنما ہاتھ میں کھدر کا صرف ایک تھیلا لیے چلا آرہا ہے۔ ایسی سادگی؟ بعد میں پتہ چلا کہ اس تھیلے میں ان کی شلوار قمیض کا صرف ایک جوڑا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے وہ ایک جوڑا خود دھوتے تھے اور رات کو ٹانگ دیتے تھے اور صبح کو دھلا ہوا جوڑا پہن لیتے تھے۔ جتنے دن وہ محمود منزل میں رہے ان کا یہی معمول رہا۔
محمود منزل میں رات کو سونے سے پہلے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ بادشاہ خان کے غیر معمولی لمبے قد کی وجہ سے بچوں کی چار پائی چھوٹی پڑگئی ۔ آخر کار دو چار پائیوں کو ملا کر یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ آخر کار خود بادشاہ خان نے یہ مسئلہ حل کردیا اور کہا کہ وہ نیچے فرش پر بستر بچھا کر سوئیں گے۔ بچے روہانسا ہوگئے اور سب نے اپنی چارپائیاں باہر رکھ کر نیچے فرش پر بستر بچھا دیے۔
دوسرے دن جامعہ کی سیر کرنے کے بعد بادشاہ خان نے مجھ سے کہا کہ مجھے گاندھی جی سے ملنے برلا مندر جانا ہے تم بھی چلو وہاں تمھاری گاندھی جی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ برلا مندر جامعہ سے دس بارہ میل کی دوری پر ہے۔ ہم نے بس لی۔ اس دوران مجھے بادشاہ خان سے خوب بات کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے میرا اسکول تو دیکھ لیا۔ یہ بتائیں کہ آپ نے کس اسکول میں تعلیم حاصل کی؟ کہنے لگے ہمارے علاقہ اتمان زئی میں صرف ایک ہی اسکول تھا، ایڈورڈس مشن اسکول۔ اسی اسکول میں میں دسویں جماعت تک پڑھا جس کے بعد مجھے انگریزی فوج میں کمیشن کی پیش کش کی گئی جو میں نے مسترد کر دی کیونکہ مجھے فوج بالکل پسند نہیں تھی اور نہ جنگ و جدل۔ ویسے بھی میں انگریزوں کی فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میں نے اور آگے یونیورسٹی کی تعلیم کو فوقیت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ میرے بڑے بھائی خان عبدالجبار خان لندن میں یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ ہمارے علاقہ کے پادری نے مجھ پر زور دیا کہ میں بھی لندن جاکر اعلٰی تعلیم حاصل کروں۔ والد صاحب تو راضی ہو گئے لیکن والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا دوسرا بیٹا بھی ان سے الگ ہو جائے۔ میں نے ماں کی خواہش کو ترجیح دی اور میں نے والد کی زمینوں پر کام کرنا شروع کر دیا۔
بادشاہ خان بولے بیٹا لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے پیروں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔ دراصل ماں کی خواہشات پر عمل کرنا ہی اصل جنت ہے۔
پھر بادشاہ خان بولے، میں نے سوچا کہ میں نے مشن اسکول میں جو تعلیم حاصل کی ہے اس کا فیض اپنے علاقہ کے بچوں کو پہنچاؤں، چنانچہ میں نے اتمان زئی میں ایک مسجد میں اسکول کھولا لیکن انگریزوں نے اسے بند کر دیا۔
میں نے بادشاہ خان سے پوچھا کہ آپ کسی طور بھی گاندھی جی کی طرح نہیں لگتے پھر لوگ آپ کو سرحدی گاندھی کیوں کہتے ہیں۔ کہنے لگے کسی کے بھیس اور شکل صورت سے مشابہت کوئی اہم نہیں اصل بات نظریات کی ہے، گاندھی جی تشدد کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں اتنے مذاہب کے عقیدے سے متفق ہوں۔ ویسے بھی ہمارا مذہب اسلام بنیادی طور پر امن و آشتی کا درس دیتا ہے۔ اس لیے مجھے گاندھی جی کے نظریہ کو قبول کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔
جب ہم برلا مندر پہنچے تو اس وقت گاندھی جی کی پراتھنا سبھا ہورہی تھی۔ گاندھی جی نے بڑے تپاک سے سرحدی گاندھی کا خیر مقدم کیا اور اپنے ساتھ بٹھایا۔ عجیب منظر تھا۔ مخنی سے گاندھی جی کے ساتھ بلندقامت غفار خان کو بیٹھے دیکھ کر ایسا لگا جیسے اونچے تاڑ کے درخت کے ساتھ بیر کی جھاڑی کھڑی ہے۔ اس وقت بھجن گایا جا رہا تھا۔ ”ایشور اللہ ایکوئی نام۔ سب کو سمتی دے بھگوان“۔
پراتھنا سبھا کے بعد بادشاہ خان نے مجھے گاندھی جی سے ملوایا اور کہا کہ یہ جامعہ کا طالب علم ہے۔ گاندھی جی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ جامعہ بہت اہم قومی تعلیمی ادارہ ہے اور ذاکر حسین اسے بہت تیزی سے فروغ دے رہے ہیں۔ گاندھی جی سے ملاقات کے بعد بادشاہ خان بے حد خوش نظر آتے تھے۔ بس میں جب تراوٹ بھری ہوا لگی تو میں نے یہ محسوس کیا کہ بادشاہ خان پشتو میں کچھ گنگنا رہے ہیں۔ واپسی پر انہوں نے بڑی تفصیل سے سب بچوں کو گاندھی جی سے ملاقات کی داستان سنائی۔
گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریہ کی حمایت کی بنا پر پاکستان میں انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا گیا اور کھلم کھلا پاکستان کی وفاداری کے اعلان پر بھی انہیں حکمرانوں نے دشمن گردانا۔
مجھے یاد ہے کہ 1948ء میں 23 جنوری کے دن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بادشاہ خان نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اور اس کے ساتھ اس زمانے کی حکومت پاکستان کی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔ جس کے بعد بادشاہ خان کی قائداعظم سے ملاقات ہوئی تھی۔ پہلی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی اور دوسری ملاقات پشاور میں خدائی خدمت گار تحریک کے صدر دفتر میں طے تھی۔ لیکن خان عبدالقیوم خان نے قائداعظم کے کان بھرے اور خبردار کیا کہ بادشاہ خان ان کے قتل کی سازش کر رہے ہیں، چنانچہ پشاور میں قائداعظم اور بادشاہ خان کے درمیان طے شدہ ملاقات نہ ہو سکی۔ بادشاہ خان نے مایوس ہوکر پاکستان میں پہلی حزب مخالف پاکستان آزاد پارٹی کے نام سے قائم کی۔
اس وقت کے حکمران گھبراگئے اور انہوں نے بادشاہ خان کو گرفتار کر لیا۔ ان کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا اور وہ بلامقدمہ چلائے 1948ء سے 1954ء تک اور ون یونٹ کی مخالفت میں ایک بار پھر 1958ء سے 1964ء تک پابند سلاسل رہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 1962ھ میں بادشاہ خان کو سال کا بین الاقوامی قیدی قرار دیا تھا۔ 1964ء میں حکومت پاکستان نے انہیں علاج کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی تھی لیکن ان کے ڈاکٹروں نے انہیں امریکا میں علاج کا مشورہ دیا تھا لیکن بادشاہ خان نہ برطانیہ گئے اور نہ امریکا۔ اس کے بجائے انہوں نے افغانستان میں جلا وطنی قبول کی۔
1984 میں انہیں امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
برصغیر کی آزادی کی طویل جدوجہد اور پاکستان میں سیاسی حقوق سے محروم چالیس سال تک پابند سلاسل رہنے کے بعد 1988ء کو دار فانی کو کوچ کرگئے۔ ان کو ان کی وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
فیس بک کمینٹ