باچا خان اپنی زندگی کے آخری دم تک عدم ِ تشدد کے فلسفے پہ کاربند رہے اور انسانیت کے لیے بلا امتیاز رنگ و نسل ، مذہب اور قومیت جد و جہد کرتے رہے ۔۔ مگر ۔۔ مگر افسوس ولی خان ان اصولوں پہ کاربند نہ رہ سکے ، سب سے پہلی ان کی غلطی یہ تھی کہ ولی خان نے اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے نیپ کو بھٹو کے ساتھ لڑا دیا ، اگر اس وقت ترقی پسند بھٹو کے ساتھ نہ لڑتے اور اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے بھٹو کے ساتھ تعاون کرتے تو پاکستان آج کی صورت ِ حال سے کبھی بھی دوچار نہ ہوتا ۔ 1973 کے آئین پہ نیپ والے متفق نہیں ہو رہے تھے آخر جب بھٹو اور بزنجو کے درمیان لاہور گورنر ہاؤ س میں آئین کو پاس کرنے کے لیے مذاکرات ہوئے تو نیپ کی سنڑل کمیٹی نیپ کے دفتر میں بزنجو کا انتظار کر رہی تھی ۔۔ جہنوں نے آ کر بتایا بھٹو کہتا ہے کہ اگر آپ لوگ نے مجھے دیوار کے ساتھ لگایا تو پھر یہاں وہ لوگ آئیں گے جنہیں آپ صدیوں نہیں نکال سکیں گئے ۔۔ اس وقت ولی خان نے کہا تھا ، صاحب اگر کوئی آتا ہے تو آ جائے کم از کم اس سے تو جان چھوٹے گی ، مگر اس وقت پارٹی کی اکثریت نے بزنجو کی لائین کا ساتھ دیا اور ولی کی لائین کو شکست ہوئی اس طرح آئین پاس ہوا مگر ولی خان نے اور اُس کے حامیوں نے بھٹو سے لڑائی بند نہ کی ۔۔۔ حیات شیرپاؤ کی ہلاکت بھی اسی لڑائی کا حصہ ہے اور تنگ آکر بھٹو فوج اور دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف چلا گیا ۔۔ بھٹو ہر قیمت پہ اقتدار اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا لیکن اگر ترقی پسند اُس سے لڑا ئی نہ کرتے تو وہ اقتدار میں شراکت داری پہ راضی تھا ، جب بھٹو کے پی این اے کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو یہ ولی خان گروپ ہی تھا جو بیگم ولی اور سردار بلخ شیر مزاری کی قیادت میں سرگرم تھا ۔ اسی گروپ اور جماعت اسلامی کی وجہ سے مذاکرات کامیاب نہیں ہو رہے تھے کیونکہ ان دونوں گروپس کی فوج کے ساتھ اندر سٹینگ ہو چکی تھی ، امریکہ اور ان دنوں گروپس کی وجہ سے فوج کی مداخلت آسان ہوئی اور جب ضیا برسرِ اقتدار آگیا تو یہ ولی خان ہی تھا جو ضیا کو کہہ رہا تھا کہ قبر ایک ہے اور لاشیں دو ۔۔ بھٹو کی اقتدار کی ہوس سے کسی کو انکار نہیں مگر ترقی پسند اُس وقت اپنا تشخص رکھتے ہوئےاور بھٹو کا ساتھ دے کر اس سے بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے اور ملک مذہبی انتہا پسندی کی طرف جانے سے بچ سکتا تھا اور آج ہم اس صورتِ حال سے دو چار نہ ہوتے ۔ جب ضیا نے نیپ کے لوگوں کو حیدر آباد سے رہا کیا تو بلوچ قوم پرستوں اور پنجاب اور سندھ کے ترقی پسندوں نے این ڈی پی میں شمولیت نہیں کی اور ولی خان سے الگ ہو گئے اور ولی خان کی پارٹی این ڈی پی جمہورت کا ساتھ دینے کی بجائے کھل کر فوج کا ساتھ دیتی رہی اس وقت جب سندھ بلوچستان خیبر پختونخواہ میں ترقی پسندوں کو کوڑے لگ رہے تھے پھانسیاں دی جا رہی تھیں سندھ کے گاؤں پہ بمباری ہو رہی تھی ولی خان کی این ڈی پی ضیا کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی تھی ۔
فیس بک کمینٹ