شاعری ایک فطری لگاؤ اور صلاحیت کا نام ہے۔جس میں شاعر اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہے۔یہ آگاہی اسے فطرت کی طرف سے ودیعت ہوئی ہوتی ہے۔حیات و کائنات کے ہر شعبے میں مختلف فکر اور مزاج کی شخصیات موجود ہیں۔جو زندگی کے مختلف رنگوں کو اپنے اپنے مزاج اور طور طریقوں سے جانچنے اور پرکھنے کا تجربہ کرتی ہیں۔ان شخصیات میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ ہیں چاہے وہ محقق ہوں،نقاد ہوں،ادیب،لکھاری،صحافی ہوں یا پھر شعراء۔
رضی الدین رضی عصر حاضر کے ایسے نامور صحافی،محقق،ادیب،دانشور اور شاعر ہیں جن کے ہر لفظ سے سچائی کی مہک آتی ہے۔خود اعتمادی، پختہ یقین،بلند خیالی،سچائی،حق گوئی و بےباکی،پیارو محبت اور بے لوث انس کا جذبہ یہ وہ صفات ہیں جو رضی صاحب کی شخصیت کا خاصہ ہیں۔
زیر نظر کتاب "ستارے مل نہیں سکتے” ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو کہ پہلی بار 1999ء میں بک مارک کراچی سے شائع ہوا۔اس کا انتساب انہوں نے محمد عامر اوپل اور ملتان کے مشہور و معروف محقق اور ادیب شاکر حسین شاکر کے نام کیا ہے۔اس شعری مجموعے کے کل صفحات 102 ہیں۔اس میں صاحب موصوف کی غزلیں،نظمیں اور آخر میں 6 مکالماتی نظمیں شامل کی ہیں۔اس مجموعے سے 4 سال پہلے ان کا پہلا مجموعہ ”دن بدلیں گے جاناں” کے نام سے شائع ہوا۔ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں ضیاء آمریت کا عروج تھا۔ہر طرف خوف و ہراس کی فضائیں چھائی رہتی تھیں۔ہر لکھنے والے کو تکلیفیں،کوڑے،نظر بندیوں اور یہاں تک کہ پھانسیوں تک کا سامنا کرنا پڑا۔ایسے حالات میں صاحب موصوف نے ایک آس،امید اور یقین کی فضا قائم کی۔زیر نظر مجموعے میں جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ناامیدی،یاسیت،مایوسی اور بے یقینی کی فضا دکھائی دیتی ہے۔لیکن ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مایوسی اور ناامیدی کی شاعر نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس یہ امید لیے ہوئے ہے کہ ”دن بدلیں گے جاناں“۔
”ستارے مل نہیں سکتے“ دراصل ان کی محبت کے جذبے سے بھرپور نظم ہے۔اگر دیکھا جائے تو ان کی شاعری کا مرکزی موضوع ہی ”محبت“ہے۔رضی الدین رضی صاحب محبت کے جذبے کو اعلی تخلیقی جذبہ گردانتے ہیں جو ایک انسان کو تخلیقی قوت بخشنے کے ساتھ ساتھ اس کو پہچان بھی دیتا ہے۔محبت کے جذبے کو ان کے نزدیک کار عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ان کی غزل سے شعر ملاحظہ کریں۔
تجھ سے جو بھی بات کی اس کو تلاوت سمجھا
ہم نے ہر کار محبت کو عبادت سمجھا
رضی الدین رضی کی شاعری کا موضوع یاسیت،ناامیدی اور بے یقینی ہرگز نہیں ہے لیکن ان کے بقول” جب مایوسی حد سے بڑھ جائے تو ”ستارے مل نہیں سکتے“ کہنا ہی پڑتا ہے“۔اس نظم سے چند مصرعے دیکھئے۔
عجب معصوم سی لڑکی تھی
مجھے کہتی تھی
لگتا ہے کہ اب اپنے ستارے مل ہی جائیں گے
مگر اس کو خبر کیا تھی
کنارے مل نہیں سکتے
محبت کی کہانی میں
محبت کرنے والوں کے
ستارے مل نہیں سکتے
رضی صاحب نے محبت کے موضوع کو مختلف شکلوں میں بیان کیا ہے۔جس میں خودکلامی،حسن و عشق کی کیفیات،ہجر و وصال،مکالمے اور حیات و کائنات کے اصل رنگ شامل ہیں۔
اس شعری مجموعے کا آخری حصہ ان کی اپنی منفرد اختراع مکالماتی نظموں پر مشتمل ہے۔جو کہ اس مجموعے کے دو اڑھائی برس پہلے ماہنامہ ”اوراق“اور ”تسطیر“میں چھپتی رہیں۔ان نظموں میں غزلوں کی بہ نسبت اعلی پائے کا ابلاغ پایا جاتا ہے۔ایک مکالماتی نظم ”سب منظر ہے“دیکھئے
پوچھا،”میری آنکھوں سے ہر روز برستا ساون کیا ہے
چاہت سے بھرتا ہی نہیں یہ
من کا خالی برتن کیا ہے
آخر میں جیون کیا ہے؟”
بولا،“جیون چلتی ریل گاڑی کی کھڑکی سے باہر کا منظر
بھاگتا دوڑتا ہانپتا منظر
خوف کے مارے کانپتا منظر
منظر جو ہر لحظہ بدلے
منظر جو اک پل میں گزرے“
ان کی غزلیں،نظمیں اور دلچسپ اور منفرد اختراع کی حامل مکالماتی نظمیں بہت فکری ابلاغ رکھتیں ہیں۔خاص کر ”ستارے مل نہیں سکتے“ نظم نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔رضی الدین رضی صاحب کی تمام شاعری خوبصورت اور سادگی کا ہنر لیے ہوئے ہے۔وہ بڑی سے بڑی بات کو بھی بڑی آسانی سے اپنے اشعار میں بیان کر دیتے ہیں۔ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے قاری کے اندر بار بار پڑھنے کی خواہش باقی رہتی ہے جو کہ ان کے قادر الکلام شاعر ہونے کا اعلی ثبوت ہے۔
فیس بک کمینٹ