پاکستان میں آج نجی شعبے میں درجنوں ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو سٹیشنز ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی وجہ سے سوشل میڈیا بھی ایک متبادل پلیٹ فارم کے طور پر موجود ہے۔ آج سے 38 سال پہلے ایسا کچھ نہ تھا صرف ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن ہی ذرائع ابلاغ کے بڑے ذریعے تھے تاہم دونوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جانے کی خبر دنیا بھر میں پھیلنے کے کئی گھنٹے بعد نشر کی۔ اس روز ریڈیو پاکستان میں کیا ماحول تھا اس کی منظر کشی ریڈیو پاکستان کے سابق پروڈیوسر انور سعید صدیقی نے اپنی کتاب ‘ریڈیو پاکستان میں 30 سال’ میں کی ہے۔ اس روز ان کی ڈیوٹی علاقائی خبروں کے ڈیسک پر تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک ساتھی ایڈیٹر خالد محمود نے خدشہ ظاہر کیا کہ آج رات کسی بھی وقت بھٹو صاحب کو پھانسی دی جانی ہے کیونکہ گزشتہ روز بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی ان سے آخری ملاقات کرائی گئی ہے۔ ‘تھوڑی دیر بعد ہم لوگ جنرل نیوز روم میں گئے اس وقت وہاں ڈپٹی کنٹرولر سید محبوب علی مرحوم شفٹ انچارج تھے۔ وہ رومال لیے بار بار اپنی آنکھوں کی نمی دور کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس سے ہمیں صورت حال کا اندازہ ہوگیا لیکن سرکاری طور پر کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی تاہم بی بی سی اور آل انڈیا ریڈیو یہ خبر نشر کرچکے تھے۔ بعد میں یہ راز کھلا کہ پھانسی تو رات دو بجے تک دے دی گئی مگر طے یہ پایا تھا کہ جب تک بھٹو کی میت نوڈیرو ضلع لاڑکانہ نہیں پہنچ جاتی اس خبر کو نشر نہیں کیا جائے گا۔’
انور سعید خان لکھتے ہیں کہ میت لے جانے والا سی ون تھرٹی جہاز دوران سفر میاں والی کے قریب کسی جگہ فنی خرابی کا شکار ہوگیا۔ پائلٹ طیارے کو واپس چکلالہ ایئر بیس لایا اور کئی گھنٹے کے بعد میت کو دوسرے طیارے کے ذریعے منزل مقصود تک پہنچایا گیا۔ یہ طیارہ صبح سات بجے کے قریب جیکب آباد پہنچا جہاں سے میت کو بذریعہ ہیلی کاپٹر نوڈیرو لے جایا گیا۔ ریڈیو پاکستان نے یہ خبر صبح آٹھ بجے کے انگریزی کے بلیٹن میں نشر کی یعنی واقعے کے چھ گھنٹے بعد اور بعد میں دوپہر بارہ بجے تفصیلی خبر نشر ہونا شروع ہوئی جو سرکاری پریس نوٹ پر مبنی تھی۔ جو یوں کچھ تھی۔ ‘مسٹر بھٹو کو آج علی الصبح دو بجے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی دی گئی ان کی میت ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ان کے گاؤں گڑھی خدا بخش ضلع لاڑکانہ پہنچائی گئی۔ جہاں انھیں اہل خانہ کی خواہش پر نمازجنازہ ادا کرنے کے بعد آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ میں ان کے رشتے داروں، احباب اور علاقے کے رہنے والوں نے شرکت کی۔’ انور سعید خان اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اس وقت سندھی خبریں پڑھنے کی ڈیوٹی شاہد قلبانی نیوز ریڈر کی تھی ان کو جب یہ خبر دی گئی ہے تو انہوں نے طبعیت کی خرابی کی بنا پر یہ خبر پڑھنے سے معذرت کر لی، جس کے بعد مترجم سے خبریں پڑھائی گئیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر جنرل ضیاالحق کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی۔
پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم اپنی یادداشتوں ‘ہم بھی وہیں موجود تھے’ میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاالحق کی حکومت میں زیادہ وقت جنرل مجیب الرحمان وزارت اطلاعات کے نگران رہے اور ٹی وی والوں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہاں زیادہ تر لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کے ہم خیال ہیں اور وہ بھی نااہل اور بے وقوف۔ وہ ایسے لوگ کو معصوم کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔جنرل مجیب کی رائے تھی کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچوں میں بھٹو کو پھانسی دی جائے تو رد عمل زیادہ نہیں ہوگا چنانچہ ان کی رائے کو صائب جانتے ہوئے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجا گیا اور بھارت کی ٹیم پاکستان آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس کے دوران کس قدر پی ٹی وی کو سینسر سے گزرنا پڑا اس صورت حال پر اختر وقار عظیم نے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ کراچی سینٹر سے سندھی زبان میں ڈرامہ چلنا تھا کہانی کچھ اس طرح کی تھی ایک شخص قتل ہوجاتا ہے۔ عدالتیں مجرم کو پھانسی کی سزا سنا دیتی ہیں مقتول کے خاندان والے سزا کے اعلان کے بعد مجرم کو معاف کردیتے ہیں۔ اس زمانے میں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا ہائی کورٹ سزائے موت کا اعلان کر چکی تھی بعض حلقوں کی جانب سے صدر ضیاالحق پر دباؤ تھا کہ معافی کا اعلان کر دیں۔ سینسر کرنے والوں کو ڈرامہ کی کہانی اور اس تاریخی واقعے میں مماثلت نظر آئی تو انھوں نے ڈرامے کو ‘ناقابل نشر’ قرار دے دیا۔
‘ہم بھی وہیں موجود تھے’ میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ ڈرامہ نشر ہونے کا وقت قریب تھا اس کی جگہ چلانے کے لیے دوسرے پروگرام کی تلاش شروع ہوئی پرانے ڈرامے دیکھے گئے لیکن ہوٹل اور دفتر وغیر کے سین میں بھٹو کی تصویر لگی ہوئی دکھائی گئی تھی اس لیے کسی کو بھی اس لائق نہیں سمجھا گیا کہ نشر کیا جائے۔
اختر وقار عظیم بتاتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر موسیقی کے پروگرام کا انتخاب کیا جاتا ہے کیونکہ غزل، نظم یا کسی اور صنف سخن میں گنجائش ہوتی ہے کہ شعر کا مفہوم کچھ کا کچھ نہ لیا جائے۔
‘اس رات بھی پوری احتیاط کے ساتھ طے ہوا کہ خمیسو خان کا الغوزہ سنادیا جائے، دھن شروع ہوئی 15 منٹ تک وہ ساز بجاتے رہے اس کے بعد پروگرام کے میزبان نے خمیسو خان کی تعریف کی اور پوچھا زندگی کیسے گزر رہی ہے اور کیا بچوں میں سے کسی کا اس میدان میں آنے کا خیال ہے۔ خمیسو خان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا ‘بچے تو اس میدان میں نہیں وہ تو ٹرک چلاتے ہیں، اللہ بھٹو سائیں کا بھلا کرے جو غریب کا خیال کرتا ہے۔ اس کے دیے ہوئے وظیفے سے گزارہ ہوتا ہے۔’ ان کے اس جملے کے بعد احتیاط دھری کی دھری رہ گئی اور پروگرام چلانے والے سبھی افراد کو معطل کر دیا گیا۔
(بشکریہ بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ