سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کے تین روزہ تاریخی بیان نے ایک طرف تو اس سے والہانہ محبت کرنے والوں کے دل گرما دیئے مگر دوسری طرف جہاں دیدہ لوگوں کو عالمی تاریخ کے اوراق پلٹ کر کسی حد تک باور کرا دیا تھا کہ ایک بڑا المیہ اقتدار پر فائز سانپ جیسی آنکھوں والے کے بدنیت کارندوں کے سبب ذیب کی طرف بڑھ رہا ہے مگر اندر سے امید کا ایک دیا تھا جو بجھتا نہیں تھا کہ بھلا اسلامی سربراہی تنظیم کے صدر کو، تیسری دنیا کے ایک بڑے لیڈر کو، کئی دوست ممالک کی اپیل کے باوجود تختہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔ وہ شخص جس نے لیبیا سے سرمایہ لے کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی، جس نے 1973ء کا متفقہ دستور بنایا تھا،جس نے چین سے پاکستان کی مضبوط دوستی کی بنیاد رکھی تھی، کیسے ممکن ہے کہ اسے موت کی کال کوٹھڑی سے نکال کر جلاد کے حوالے کر دیا جائے؟ یہ تو بہت بعد میں شواہد سامنے آئے کہ امریکا کی طرف سے اس کی موت کا ہدایت نامہ جاری ہو چکا تھا اور تمام تر سیاسی بونے ضیا الحق کے قدموں سے لپٹ کر اس کی موت کا مطالبہ کر چکے تھے،جسے وہ سیاسی میدان میں شکست نہیں دے سکتے تھے۔
3 اپریل کی شام کو ملتان کے کیفے سٹارلائٹ میں ضیا ع الحق کے پیرومرشد سردار عبدالقیوم اور چودھری شجاعت حسین کے اعزاز میں ایک عصرانہ ترتیب دیا گیا تھا، جس کی صدارت شیخ خضر حیات نے کی( جو 1977ء کے’دھاندلی‘ والے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور بعد میں جج بنائے گئے) ایک شاگرد مجھے وہاں لے گیا کہ بھٹو کے قتل کے درپے لوگوں کا اجتماع ہے، شاید ان کی تقریروں سے صحیح اندازہ ہو کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اپیل اور پھر ریویو پٹیشن مسترد ہونے کے بعد کوئی امکان بھٹو کی جلاوطنی کا بھی ہے، جس کی قیاس آرائی بعض خوش فہم حلقے کر رہے تھے۔وہاں میں نے جماعت اسلامی سے وابستہ ملک وزیر غازی ایڈووکیٹ کو زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ سعودی عرب کے بادشاہ کے خلاف گرجتے برستے سنا کیونکہ شاہ کی طرف سے بھی اس روز جاں بخشی کی اپیل آ گئی تھی۔ ملک وزیر غازی کی آزردگی سے ایک مرتبہ پھر ہم لوگوں کو امید بندھی کہ بھٹو کو پھانسی دینا شاید اب ممکن نہ ہو۔ بی بی سی کے اردو ہندی نشریئے سننے کے بعد دیر تک مبارک احمد مجوکہ کے گھر سزائے موت پر عمل درآمد ہونے یا مؤخر ہونے پر بحث ہوتی رہی، ہماری سیاسی ’بصیرت‘ ایک خوش فہمی میں بدل چکی تھی کہ بھارت کی قید سے ترانوے ہزار فوجی قیدیوں کو رہائی دلانے والے کو سولی پہ چڑھانا آسان کھیل نہیں رہا۔ اسی رات میری والدہ ایک آپریشن کے لئے سی ایم ایچ میں داخل ہوئیں، علی الصبح میں وہیں تھا جب ایک ضمیمہ کے لئے اخبار فروش کی دہائی یا منادی سنائی دی’ آج صبح سورج کے طلوع سے بہت پہلے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا‘ ایسے لگتا تھا کہ آسمان گر پڑا ہے یا زمین شق ہو گئی ہے، سڑکیں اک دم سے ویران ہو گئیں، در و دیوار کی سوگواری سے لگتا تھا کہ کوئی انہونی ہو گئی ہے، آپس میں رابطہ فون کی محدود سہولت کے باوجود ہو جاتا تھا۔ ایک نے دوسرے سے کہا اور دوسرے نے تیسرے سے کہ شہر میں مختلف مقامات پر غائبانہ نماز جنازہ ہو گی، سو میں بھی ایم سی سی گراﺅنڈ میں پہنچا، لوگ دل برداشتہ اور بے سمت تھے، چار سے پانچ صفیں ہی بن پائیں مگر ابھی سلام نہیں پھیرا تھا کہ جماعت اسلامی کا لٹھ بردار دستہ ہم سب پر ٹوٹ پڑا، پتہ چلا کہ یہ فریضہ میاں محمد طفیل کی جماعت نے اپنے ذمے لیا تھا تاکہ بعد میں صالحین ٹی وی کیمروں کے سامنے کہہ سکیں کہ کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھنے نہیں نکلا تھا۔ شام تک میں نے ایک افسانہ ’درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘ لکھا اور چھ سے سات دوستوں کی ’خفیہ‘ مجلس میں پڑھا۔ واضح رہے کہ بھٹو نے اپنے سپریم کورٹ کے بیان کو سرائیکی زبان کے اس مصرعے پر ختم کیا تھا۔ تب دو چار دوستوں نے’مصدقہ‘ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ گور پیا کوئی ہور، بھٹو کو بیرونِ ملک روپوش کر دیا گیا ہے، پھر وقتاً فوقتاً یہ خبریں آتی رہیں کہ بھٹو سعودی عرب میں مقیم ہیں، کبھی کبھار کسی حاجی کو دکھائی دے جاتے ہیں، انہوں نے ڈاڑھی رکھ لی ہے وغیرہ، دوسری طرف کوئی ان کے آخری وقت میں شیو کرنے کے بعد اس معروف جملے کا تذکرہ کر دیتا جس سے احساس ہوتا تھا کہ تارا مسیح کی تحویل میں جا کر بھی وہ مفتی محمود کے چہرے کو بھولا نہیں تھا۔
فیس بک کمینٹ