یہ 1994ءکی بات ہے جب میں لندن آیا تو اس وقت برطانیہ میں ٹوری پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہونا شروع ہوچکا تھا۔ جان میجر ملک کے وزیراعظم تھے ۔ لیبرپارٹی کی مقبولیت کا گراف بتدریج اپنی بلندی کی طرف جا رہا تھا۔ لیبر لیڈر جان سمتھ ممکنہ طور پر ملک کے آئندہ وزیراعظم سمجھے جاتے تھے مگر مئی 1994ءمیں وہ دل کے دورے کے سبب اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو لیبرپارٹی نے ٹونی بلئیر کو اپنا لیڈر منتخب کرلیا اور پھر1997 کے عام انتخابات میں لیبر پارٹی واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی اور ٹونی بلئیر برطانیہ کے وزیر اعظم بنے ۔
لیبر پارٹی نے اقدار میں آتے ہی عوام دوست پالیسیاں متعارف کرائیں جن کی وجہ سے لیبر پارٹی 13 برس تک برطانیہ کی حکمران رہی۔ عراق پر امریکی حملے میں جارج بش کا ساتھ دینے پر ٹوٹی بلئیربر طانوی عوام کے عتاب کا نشانہ بنے اور انہیں 1997ءمیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا جس کے بعد گورڈن براؤن لیبر لیڈر منتخب ہوئے اور 2010ءکے عام انتخابات تک وزیراعظم رہے ۔ 2010ءکے انتخابات میں لیبر پارٹی کو ٹونی بلئیر کی اندھی امریکی تقلید کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور برطانوی عوام نے کنزرویٹو پارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا۔ ڈیوڈ کیمرون وزیر اعظم بنے لیکن یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کا ریفرنڈم انہیں لے ڈوبا۔ برطانوی عوام کی اکثریت نے 23 جون 2016ءکویورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دیا تو ڈیوڈکیمرون نہ صرف وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہوگئے بلکہ سیاست سے بھی کنارہ کش ہوگئے ۔ اُن کے بعد یہ ذمہ داری خاتون سیاستدان ٹریسامے نے سنبھالی مگر اُن کے دورِ اقتدار میں بریگزٹ کا اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا۔ مڈ ٹرم اور جنرل الیکشن سے بھی بریگزٹ کا مسئلہ حل نہ ہوا تو 2019ءکے عام انتخابات میں ٹوری پارٹی کو ایک بار پھر واضح اکثریت حاصل ہوگئی اور بالآخر کنزرویٹو وزیر اعظم بورس جانسن نے برطانوی قوم کو سیاسی غیر یقینی کے دھند سے نکال کر یورپی یونین سے علیحدگی کی منزل کا راستہ ہموار کیا۔
اس تمہید کا مقصد برطانیہ میں جمہوری نظام کی بالادستی اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے ۔
اسی تناظر میں گزرنے والے 25 برسوں کا اگر پاکستان کے حالات سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہے اور نہ ہی ملک میں حقیقی جمہوریت کی بنیادیں مستحکم ہیں۔ 1988ءکے بعد تین بار پاکستان پیپلز پارٹی اورتین بار پاکستان مسلم لیگ (ن)کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا لیکن ان جماعتوں کے اندر نہ تو جمہوری اقدر نے جڑ پکڑی اور نہ ہی ان جماعتوں کے پیرو کار جمہوری ردیوں کو اپنا سکے وگرنہ ان جماعتوں پر کبھی بھی ایک خاندان کی اجارہ داری نہ ہوتی۔ برطانیہ میں 1994ءکے بعد لیبر اور ٹوری دونوں جماعتوں کو برطانوی اقتدار میں آنے کا موقع ملا مگر یہ نہیں ہوا کہ جان میجر یا ڈیوڈ کیمرون کے پارٹی لیڈر نہ رہنے سے ٹوری پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا ہو یا ٹونی بلئیر اور گورڈن براؤن کے چلے جانے سے لیبر پارٹی عوامی مقبولیت سے محروم ہوگئی ہو۔ ان جماعتوں کے لیڈر آتے جاتے رہتے ہیں مگر جماعتیں قائم رہتی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا مستحکم ہونا ہے ۔
برطانیہ کی سیاسی جماعتیں بلا تخصیص رنگ و نسل اپنا لیڈر جمہوری طریقے سے منتخب کرتی ہیں اور عام انتخابات میں کامیابی پر وہ لیڈر ملک کا وزیراعظم بن جاتا ہے اور ناکامی کی صورت میں استعفیٰ دے کر چلا جاتا ہے اور پارٹی اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیتی ہے ۔ یہ جمہوری طرزِ عمل لیڈر شپ یا شخصیت پرستی کی بجائے سیاسی جماعتوں کو مستحکم کرتا ہے ۔ اگر برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے اندر یہ جمہوری نظام نہ ہوتا تو اس ملک میں کبھی جمہوریت فروغ نہیں پاسکتی تھی۔ اب اگر اس جمہوری تسلسل کا پاکستان کے حالات سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارا ملک ابھی تک حقیقی جمہورت سے کیوں محروم ہے ؟ کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) یا پھر تحریک انصاف کے اندر ایسا جمہوری تقاضا پورا ہوسکتا ہے یعنی ان تینوں جماعتوں کے اندر خاندانی یا شخصی اجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہے ؟ کیا پیپلز پارٹی بھٹو یا زرداری خاندان ، مسلم لیگ (ن) نواز شریف خاندان اور پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی قیادت کے بغیر اپنے آپ کو قائم رکھ سکتی ہیں؟
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے بانیوں اور قائدین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ متبادل قیادت کوپنپنے ہی نہ دیا جائے اور اگر کسی کو اپنے بعد پارٹی کا سربراہ بنانا ہی ناگزیر ہو تو وہ اپنے گھر یا خاندان کا فرد ہونا چاہئے ۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے ایسا ماحول اور حالات پیدا کر رکھے ہیں کہ خاندان سے باہر کے کسی فرد کو جرات ہی نہ ہو کہ وہ پارٹی قیادت کے لئے ”انٹر پارٹی الیکشن“ (جو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا آئینی تقاضا ہے ) میں امیدوار بننے کا تصور کرے ۔ اسی لئے پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ بلا مقابلہ اپنی پارٹیز کے لیڈر بن جاتے ہیں۔ کیا اعتزاز احسن یا رضا ربانی یہ جرات کرسکتے ہیں کہ بلاول زرداری کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے لیڈر کا انتخاب لڑنے کے لئے اپنا نام امیدوار کے طور پر پیش کرسکیں یا احسن اقبال اور خواجہ آصف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کے لئے امیدوار بننے کی ہمت کرسکتے ہیں یا پھر شفقت محمود یا شبلی فراز پاکستان تحریک انصاف کے انٹرپارٹی الیکشن میں عمران خان کے مقابلے میں امیدوار بن سکتے ہیں۔ اسی طرح کیا یہ ممکن ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) یا کوئی اور بڑی سیاسی جماعت عام انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکے تو اس کی قیادت استعفیٰ دے کر کسی اور کو پارٹی کی قیادت کا موقع فراہم کرے ۔ جیسا کہ برطانیہ میں ہوتا ہے ۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی برطانیہ کی طرح کا جمہوری نظام رائج ہو اور ایسی جمہوریت کے ثرات سے ہمارے ملک کے ادارے مستحکم ہوں اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنے ملک میں جمہوریت کی بنیاد کو مستحکم کریں یعنی سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لے کر آئیں۔ شخصیت پرستی کا خاتمہ کریں، خاندانی اجارہ داری کے غلبے سے نکلیں۔ پارٹی لیڈرز آتے جاتے رہیں مگر سیاسی جماعتیں قائم رہیں۔ جس طرح برطانیہ سمیت دنیابھر کے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے ، وگرنہ پاکستان میں جمہوریت کی بنیادوں میں ہمیشہ کے لئے ریت بھری رہے گی جس پر کبھی حقیقی جمہوریت کی عمارت مستحکم نہیں ہوسکتی۔
جمہوری تقاضوں میں ایک اہم تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں نہ ہوتو شیڈو کابینہ بناکر اپنی ایک ایسی ٹیم تیار کرے جو ملک کے اہم معاملات اور مسائل کو پیش نظر رکھ کر ایسی ٹھوس پالیسیوں کا لائحہ عمل تیار کرے جسے اقتدار میں آنے کے بعد ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن بنایا جاسکے ۔ کہنے کو تو عمران خان بیس برس تک حزبِ اختلاف میں رہ کر سیاسی اور جمہوری جدوجہد کرتے رہے مگر وہ اس عرصے میں اپنی کوئی شیڈو کابینہ یا ٹیم نہ بناسکے جو اقتدار میں آنے کے بعد ٹھوس اور قابل عمل پالیسیاں ترتیب دیتی تاکہ انہیں گزشتہ حکومتوں کے ناکام سیاستدانوں اور نام نہاد ماہرینِ اقتصادیات کے سہارے کی ضرورت نہ پیش آتی۔ جو سیاستدان یا لیڈر بیس برس تک حزب اختلاف کی سیاست میں رہ کر اپنی ٹیم نہ تیار کرسکے اس سے کسی اور دوراندیشی یا سیاسی بصیرت کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ برطانیہ میں جمہوری سیاست کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس ملک کے سیاستدان اپنی پارٹی یا ملک کی سربراہی کے منصب پر فائز رہنے کے بعد اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ جان میجر، ٹونی بلئیر، گورڈن براؤن یا ٹریسا مے اپنی اپنی اننگز کھیلنے کے بعد دوسرے سیاستدانوں کو اپنی صلاحیتیں آزمانے کے مواقع فراہم کرچکے ہیں جبکہ پاکستان میں ہمارے سیاسی قائدین کی اقتدار کی بھوک ہی ختم نہیں ہوتی۔ تین بار اقتدار میں رہنے کے بعد وہ کسی اور کو راستہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تا وقتیکہ ان کی اپنی اولاد یا خاندان کے لوگ بالغ ہوکر پارٹی قیادت سنبھالنے کے قابل نہ ہوجائیں۔
برطانیہ کی جمہوری سیاست میں فوج اور عدلیہ کے سربراہ کو کبھی سیاست میں نہیں گھسیٹا جاتا۔ برطانوی شہریوں کی اکثریت کو نہیں معلوم کہ ان کے ملک کا چیف آف آرمی سٹاف یا چیف جسٹس کون ہے اور نہ ہی ان کی تصاویر اور خبریں کبھی کسی اخبار یا ٹی وی چینلز پر شائع یا نشر کی جاتی ہیں اور نہ ہی ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی کوریج کبھی کسی میڈیا پر نظر آتی ہے ۔
برطانیہ کی جمہوری سیاست کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ یہاں ہاؤس آف کامنز یعنی پارلیمنٹ کے اراکین میں شاید ہی کوئی سیاست دان ایسا ہوگا جو تاجر یا بزنس مین ہو یعنی کسی کی کوئی شوگر مل ہو، امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار ہو، پولٹری فارمز ہوں۔ برطانیہ میں سیاست اور تجارت دو الگ پیشے اور شعبے ہیں۔ یہاں کے سیاستدانوں کو واقعی اپنے سیاسی معاملات سے اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ تجارت کی طرف متوجہ ہوں۔ یہاں سیاست واقعی ایک عوامی خدمت اور کل وقتی پیشہ ہے ۔ برطانوی سیاست دانوں کے پاس اگر ان کی آمدنی (تنخواہ) سے زیادہ وسائل آجائیں تو ٹیکس آفس کے فوراً کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسے سیاستدانوں کو لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ اور اگر وہ حکومت کا حصہ ہو تو سب سے پہلے اسے استعفیٰ اور پھر اپنے وسائل کا حساب دینا پڑتا ہے ۔ برطانیہ میں کوئی وزیر یا وزیراعظم تصور نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات سے کسی کو کوئی پلاٹ، پرمٹ یا مالی مدد فراہم کرسکتا ہے کیونکہ یہاں کے عوامی جمہوری نظام میں نہ تو ایسی کوئی آپشن موجود ہے اورنہ ہی کوئی گنجائش۔
دنیا بھر میں آج بھی جمہوری نظام ملکوں اور قوموں کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے ۔ اسی نظام کے ذریعے دنیا کے درجنوں ترقی پذیر ملک ترقی یافتہ بن چکے ہیں۔ ان کی بدحالی، خوشحالی میں تبدیل ہوچکی ہے لیکن اس کے لئے سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینا ناگزیر ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر حقیقی جمہوریت کے بغیر ملک میں کبھی جمہوریت کو فروغ نہیں مل سکتا۔ گندم کے بیج بوکر یہ توقع کرنا کہ اس پر کپاس لگے گی، خود کو سراسر دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کتنے سادہ ہیں کہ وقت بے وقت اذانیں د ینے والے مرغوں سے امید لگائے رکھتے ہیں کہ وہ انڈے دیں گے ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
فیس بک کمینٹ