کیا پنجاب میں تبدیلی کا وقت آگیا ہے ؟
کیا وزیر اعظم عمران خان کو بجا طور پر یہ احساس ہوگیا ہے کہ اٹھاون فیصد آبادی کے صوبے کو ایک نا تجربہ کا رسیاسی بزرجمہرکے وزیر اعلیٰ بنانے سے کیا کیا نقصانات ہوئے ہیں؟
مگر عمران خان ابھی بھی کچھ نہیں سیکھے کہ وہ عثمان بُزدار کو ہٹا کر پھر ایک بار نیا تجربہ کرنے کے زعم میں ہیں ۔
کیا عمران خان کا کوئی ایسا مشیر ہے جو انہیں نت نئے تجربات پر آسانی کے ساتھ آمادہ کرلیتا ہے ؟ یا وہ خود بڑے سے بڑا فیصلہ کر لیتے ہیں جو عام طور پر صائب نہیں ہوتا ،جس کی تقصیر کا عذاب سب کو بھگتنا پڑتا ہے ۔جو بھی ہے یہ طے ہے کہ کپتان ایک بار پھر ٹھوکر کھانے پر تلے ہوئے ہیں ،شاید سیکھنا ان کی سرشت میں نہیں ہے ۔اپنے لگ بھگ دوسالہ دورِ اقتدار کے دوران انہوں نے کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کیا جس پر جَم گئے ہوں ۔وہ یو ٹرن کو اپنی سیاسی زندگی کی بقا تصور کرتے ہیں ،اس کے پیچھے چھپی سُبکی کا انہیں کبھی ادراک ہی نہیں ہوا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ”نا تمام“ سے تمام کے سفر میں سب کھویا ہی کھویا ہے ،پایا کچھ بھی نہیں ۔اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ بے برکت لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا رہے ہیں۔
عمران خان نے فیصلے کی گھڑی میں کبھی سنجیدہ اور معتبر فیصلہ نہیں کیا اس لئے بہت سارے معتبر رائے رکھنے والے بہی خواہ گنوا دیئے ۔انہوں نے نعرہ ریاست مدینہ کا لگایا مگر ہر قدم پر مدینے والی سرکار ﷺ کے دشمنوں کی قربت میں زیادہ دکھائی دیئے ،جان بوجھ کر یا اپنی بے خبری کی بنا پر ۔ان کا بڑاالمیہ یہ رہا ہے کہ نا معلوم سے معلوم کا سفر آنکھیں بند کرکے طے کرتے ہیں ۔وہ خود کو علم و آگہی کا منبع تصور کرتے ہیں اور اسی گھمنڈ نے انہیں سیاسی محاذپر بار بار شکستوں سے دوچار کیا ،مگر مانتے پھر بھی نہیں ۔
پنجاب جتنا بڑا صوبہ ہے اس کے اتنے ہی بڑے بڑے مسائل ہیں ،جن سے نمٹنا ایک معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کسی مقامی سیاسی رہنما کے بس کی بات نہیں اور کہاں ایک معمولی سیاسی کارکن کے کندھوں پر اس کا بوجھ ڈال کرمعاملات کو بد سے بد تر بنا دیا گیا۔آغاز میں یہ عندیہ دیا گیا کہ صوبے کی باگ ڈور ایک صالح آدمی کے ہاتھ دی گئی ہے، اگر وہ آدمی اسی صفت کا حامل ہی ہوتا تو بھروسہ کیا جاسکتا تھا ،اقربا پروری کی جو داستانیں ان دوبرسوں میں اس سے منسوب ہوئیں الامان الحفیظ۔
ان دنوں ایک پولیس افسر نے موصوف کے انتخابی حلقہ میں جو دھوم مچائی ہوئی ہے ،سوشل میڈیا پر ہارون الرشید کی زبانی احوال سن کر کانوں کو ہاتھ لگانے پڑے ۔شریف آدمیوں کی پگڑیاں اچھالنا ،ان کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرنا ،یہ تو معمول کی باتیں ٹھہریں ۔صوبے بھر میں ہر سرکاری محکمے میں رشوت ستانی ،ہوش ربا گرانی،سفید پوش طبقہ کی بھرم دری ایسی کہ زندگی کرنا دو بھر ،یہ سب تو سامنے کی باتیں ہیں درونِ پردہ جو ہے اس کی پردہ کشائی کیا کریں کہ اپنی ہی پیٹھ ننگی کون کرے۔
دوردراز علاقے کے سیدھے سادے آدمی کا طرز حکمرانی خوب دیکھ لیا ،صوبے کے باسیوں کو ایک بار پھر ایک نئے تجربے کی سان پر نہ چڑھائیں ،اٹک کے خانوادہ بخاری کے زلفی بخاری ہی کافی نہیں کہ جن کی مہربانی کا ثمر زائرین کے طفیل جنوبی پنجاب میں برق رفتاری سے پھیلنے والے کورونا کی سب ہی نے دیکھ لیا ،یوں بھی زلفی بخاری کے پاس کونسے اختیارات نہیں کہ اب صوبے کی کمانداری کا قلمدان ان کے والد سید یاور عباس بخاری کو سونپ کر کسی بڑے احسان کے چکائے جانے کی خبریں گرم ہیں ۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے اول دن سے چیخ وپکار رہی ہے کہ صوبے کے مسائل سے لڑنے کے لئے بڑے دماغ اور بلندحوصلے کا آدمی چاہیئے جو اختیارت کے استعمال کرنے کے گُر ہی نہ جانتا ہو بلکہ یہاں کے گروؤں کے گُر توڑنے کا فن بھی جانتا ہو ۔ملک کا بڑا صوبہ بے اماں ہاتھوں میں دیا جاتا رہا تو مسائل بڑھیں گے ،مسائل پیدا کرنے والی قوتیں اور مضبوط ہوں گی ،محرومیاں جو پہلے ہی کم نہیں ہیں فروتر ہوں گی ،پیچیدگیاں بڑھتی چلی جائیں گی ۔کورونا وائرس نے جس بے امانی کے خوف میں مبتلا کیا ہوا ہے اس کے ازالے کے لئے پنجاب کی کسی بردبار سیاسی شخصیت پر بھروسہ کرنا ہوگا ،جس کا سیاسی قد کاٹھ اتنا ہو کہ کہ جسے سیاست کی بساط پر شہ دینا آسان نہ ہو ،وہ ہر چال چلنے پر قادر ہو ،سب کو ساتھ لیکر چلنے کے داؤپیچ سے آگاہ ۔دور دراز بیٹھا ایک شریف سید یہ کیونکر بجا لاسکتا ہے ،زلفی بخاری ہی کو نوازنے
کی ٹھان رکھی ہے تو اسی پر پوری ذمہ داری ڈال دیں یہ کیا کہ بندوق اس کی ہو اور کندھے اس کے سید باباکے۔واللہ اعلم
فیس بک کمینٹ