ملک میں معاشی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے اور پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے پرعزم شہباز شریف کی حکومت نے وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ خبروں کے مطابق اسی ہفتے کے دوران مزید 14 وزیر اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔ یہ ’خوش کن‘ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب مسلسل حکومتی آمدنی میں اضافہ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور وزیر اعظم شہباز شریف بنفیس نفیس متعدد مواقع پر فرما چکے ہیں کہ انہیں بیرونی دوروں کے دوران امداد مانگتے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ میں اس وقت وزیر اعظم کے علاوہ 18 ارکان شامل ہیں۔ اگر خبروں کے مطابق اس ہفتے کے آخر تک کابینہ میں توسیع کا کام مکمل ہوجاتا ہے تو وفاقی کابینہ 32 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ ایک چھوٹی سی معیشت کے حامل پاکستان کی وفاقی حکومت کو اس قدر بھاری بھر کم کابینہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن سیاسی ضرورتیں پوری کرنے، حلیفوں کو نوازنے اور اپنے ساتھیوں کو موقع دینے کے لیے ایسے اقدام کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ شہباز شریف کابینہ میں توسیع کرنے والے یا بڑی تعداد میں غیر ضروری طور سے وزارتیں بانٹنے والے پہلے سربراہ حکومت ہیں۔ لیکن یہ کہنا بہر حال درست ہوگا کہ موجودہ حالات میں جب وفاقی حکومت کی کارکردگی اور حق نمائیندگی پر مسلسل سوال اٹھائے جارہے ہیں، کابینہ میں توسیع کرکے سیاسی ہیجان پیدا کیا جائے گا اور قومی خزانے کو زیر بار ہوگا۔
یہ امر واضح ہونا چاہئے کہ پاکستانی سیاست دانوں کی بہت کم تعداد حقیقی معنوں میں انتظامی امور دیکھنے اور کسی وزارت میں کوئی انقلابی تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر یہ صورت حال نہ ہوتی تو وزارت خزانہ پر محمد اورنگ زیب اور وزارت داخلہ پر محسن نقوی کو مقرر نہ کیا جاتا۔ اس وقت ملکی امور کی نگرانی اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ لین دین کے لیے کسی ماہر کی ضرورت تھی لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک پر متعدد بار حکومت کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں ایک بھی شخص اس اہل نہیں تھا جو اس اہم وزارت کی سربراہی کرتا۔ نواز شریف کے علاوہ شہباز شریف نے متعدد بار اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ مقرر کیا لیکن ان کی مالی پالیسیاں کبھی معاشی اصلاح کی بنیاد نہیں بن سکیں بلکہ انہوں نے مختلف ہتھکنڈوں سے معیشت کی بہتر پرفارمنس دکھانے کے لیے ایسے فیصلے نافذ کیے جو بعد میں ملکی معیشت کے لیے شدید نقصان کا سبب بنے۔ ان میں ایک فیصلہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ کو ایک خاص سطح پر مقرر رکھنا تھا۔ ان ملکوں میں تو یہ فیصلہ کامیاب ہوجاتا ہے جنہیں زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی کا سامنا نہیں ہوتا بلکہ ان کے خزانے میں مسلسل بیرون ممالک سے کرنسی وصول ہورہی ہوتی ہے۔ ایسے ممالک جن میں متعدد عرب ممالک شامل ہیں ڈالر کے مقابلے میں اپنی مقامی کرنسی کی شرح ایک خاص حد پر مقرر کرکے معاشی استحکام پیدا کرتے ہیں۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ڈالر کو ہی رہنما کرنسی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن مقامی آبادی کی سہولت کے لیے اسے کوئی مقامی نام دے لیا جاتا ہے۔ ان ممالک کے خزانے پیٹرول اور گیس کی برآمد کے سبب ہمیشہ بھرے رہتے ہیں اور انہیں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو ایک خاص حد تک مستحکم رکھنے کے لیے کسی دوست ملک سے مسلسل چند ارب ڈالر ادھار دینے کی درخواست نہیں کرنی پڑتی۔
اسحاق ڈار اس فرق کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اسی لیے نواز شریف کے دو اداوار میں وزیر خزانہ کے طور پر انہیں نے روپے کی کم ہوتی شرح کو تسلیم کرنے کی بجائے جعلی طریقوں سے ڈالر کے مقابلے میں اس کی شرح فکس کرکے ملکی معیشت پر مسلسل اور دائمی بوجھ ڈالنے کا اہتمام کیا۔ انہیں نواز شریف کی سفارش پر ستمبر 2022 میں شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں بھی وزارت خزانہ کا قلمدان دیا گیا۔ اس سے پہلے چند ماہ تک اس وزارت کا انتظام دیکھنے والے مفتاح اسماعیل سے ذبردستی استعفیٰ لیا گیا تاکہ نواز شریف کے عزیز اور چہیتے اسحاق ڈار کو ان کی پسند کی وزارت مل سکے۔ حالانکہ مفتاح اسماعیل نے چند ماہ ہی کے دوران آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرتے ہوئے ملکی معیشت کے لیے بہتر بنیاد فراہم کرنے کے لیے قابل قدر کام کیا تھا۔ البتہ اسحاق ڈار یہ دعوے کرتے ہوئے لندن سے پاکستان آئے کہ وہ عالمی اداروں کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں، وہ روپے کو چند ماہ میں ہی ڈالر کے مقابلے میں دو سو روپے تک لے آئیں گے۔ اسی غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ وارانہ رویہ کی وجہ سے وہ آئی ایم ایف کے ماہرین کی یہ تجویز سمجھنے میں ناکام رہے کہ پاکستان کی کرنسی جب تک اپنی حقیقی شرح مبادلہ پر نہیں آنے دی جائے گی، اس وقت تک ملکی معشیت میں موجود خرابیاں دور نہیں ہوسکتیں۔ انہی کے دور میں آئی ایم ایف سے معاملات خراب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے بعد خواہش کے باوجود انہیں وزارت خزانہ کا قلمدان نہیں مل سکا۔ اور نجی شعبہ سے ایک ماہر بنکار محمد اورنگ زیب کو یہ عہدہ دیا گیا۔ کیوں کہ عسکری قیادت ملکی معیشت میں غیر ذمہ دارانہ سیاسی تجربے کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھی۔
پوری قوم شہباز شریف اور نواز شریف سے اس سوال کا جواب جاننا چاہے گی کہ اسحاق ڈار میں وہ کون سی غیر معمولی خوبیاں ہیں کہ انہیں وزیر خزانہ ’بھرتی‘ نہیں کیا جاسکا تو وزیر خارجہ بنا دیا گیا بلکہ اضافی طور سے ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ بھی دے دیا گیا حالانکہ ملکی آئین میں اس عہدے کی نہ تو کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اس کی کوئی روایت موجود ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں آصف زرداری نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے لیے چوہدری پرویز الہیٰ کو اس عہدے پر ضرور فائز کیا تھا۔ اس وقت بھی یہ اقدام سیاسی مجبوری ہی کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ تاہم شریف برادران نے ابھی یہ نہیں بتایا کہ اسحاق ڈار کو مسلسل کابینہ میں شامل رکھنے اور اضافی طور سے ڈپٹی وزیر اعظم بنانے میں کون سی مصلحت شامل ہے۔ کیا قومی خزانہ اور وفاقی کابینہ کسی ایک خاندان کی ملکیت ہے کہ ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچے ہوئے ناپختہ، ناتجربہ کار اور غیر ضروری لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرکے ایک طرف قومی خزانہ کو زیر بار کیا جائے، دوسرے ان کی نااہلی سے ہونے والے نقصان کا بار بھی اٹھایا جائے۔ اسحاق ڈار مئی میں 75 سال کے ہونے والے ہیں۔ انہیں سیاسی عہدوں کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کی بجائے اب آرام کی زندگی گزارنی چاہئے تاکہ نیا خون قومی سیاست میں کردار ادا کرسکے۔
وفاقی کابینہ کی دوسری اہم ترین وزارت امور داخلہ کی ہے۔ خاص طور سے ملک کو دہشت گردی کے حوالے سے اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے، اس میں کسی ایسے قابل اور زیرک شخص کو یہ عہدہ ملنا چاہئے تھا جو ایک طرف دہشت گردی کے عوامل و وجوہات کا ادراک رکھتا ہو ، دوسرے وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر اس عفریت سے نمٹنے کے لیے کام کرسکے۔ ایک جمہوری سیٹ اپ میں کسی وزیر کو محض جھنڈے والی کار میں بٹھانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ماہرانہ انداز میں ملکی سلامتی سے متعلق امور طے کرے گا اور نئی پالیساں متعارف کراکے، پرانے مسائل حل کرے گا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جیسی پرانی سیاسی جماعت اس عہدے کے لیے بھی کوئی موزوں نام سامنے نہیں لاسکی۔ اس عہدے پر محسن نقوی کو متعین کیا گیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عسکری حلقوں کے لیے قابل قبول ہیں۔۔ وہ پہلے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے تھے ۔ ان کی نگران حکومت کو انتخابی دھاندلی میں ملوث ہونے کے سنگین الزام کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود انہیں شہباز شریف نے اپنی کابینہ میں وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا ہؤا ہے۔ محسن نقوی صحافت سے راستہ بناتے ہوئے اعلیٰ سیاسی عہدوں تک پہنچے ہیں لیکن ابھی تک وزیر داخلہ کے طور پر وہ کوئی رہنما حکمت عملی سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ نہ خیبر پختون خوا میں تحریک طالبان پاکستان کے سرکش عناصر کو مین اسٹریم میں لانے یا نیوٹرل کرنے کا مقصد حاصل کیا گیا ہے اور نہ ہی بلوچستان میں قوم پرست عناصر کے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کیا جاسکا ہے۔ فوج اپنے طریقے سے ان دونوں مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ آئی ایس پی آر ہی امن و امان کی صورت حال کے بارے میں عوام کو مطلع کرتا ہے۔ وزیر داخلہ کا کام کسی ناخوشگوار وقوعہ کے بعد مذمتی بیان جاری کرنے تک محدود ہوچکا ہے۔
وزارت داخلہ کی اہم ذمہ داری کے علاوہ محسن نقوی کو پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کا چئیرمین بھی بنایا گیا ہے۔ وہ عام طور سے سلامتی کے امور دیکھنے کی بجائے کرکٹ معاملات میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اب چیمپنز ٹرافی کے انعقاد کا کریڈٹ لے کر قوم سے داد وصول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ پاکستانی ٹیم اب تک کھیلے ہوئے دونوں میچ ہار کر اس مقابلے سے باہر ہونے کے قریب ہے۔ لیکن بطور چئیر مین محسن نقوی اس ہزیمت کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دہشت گردی، بدامنی، سیاسی انتشار اور انتظامی خلفشار کے شکار ملک کا وزیر داخلہ اپنا کام چھوڑ کر کرکٹ کی دیکھ بھال کرنے میں مصروف ہے۔ ایسی بوالعجبی پاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی دوسرے ملک میں دیکھنے میں آئے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم اب اپنی لائق فائق کابینہ میں نئے ہونہار شامل کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
اس حکومت کے وزیر اطلاعات کی صلاحیت کی داد دیے بغیر یہ نوٹ مکمل کرنا زیادتی ہوگی کہ اتوار کو دوبئی میں بھارت کے ساتھ مقابلے سے پہلے موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ اس بار بھارت کو ہرا کر پاکستان ثابت کردے گا کہ ہم اسے کہیں بھی اور کسی بھی میدان میں شکست دے سکتے ہیں۔ کھیل کو میدان جنگ بنانے والا یہ وزیر پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکست کے بعد بھی اپنے عہدے سے چمٹا ہؤا ہے۔ آئیندہ چند روز میں وہ اپنے جیسے ہی مزید ساتھیوں کا استقبال کرتے ہوئے کوئی نئی پھلجڑی بھی چھوڑ سکتا ہے۔
( بشکریہ : کارواں ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ