سیاست بھی عجیب گورکھ دھندا ہے۔ ہر سیاسی جماعت غریبوں کے مسائل کا رونا رو کر اشرافیہ کو سہولیات فراہم کرتی ہے جبکہ غریب اور عام آدمی اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کی بجائے اشرافیہ کی سپاہ کے طور پر ہر قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ملک میں اشرافیہ دولت کے بل بوتے پر عام آدمی کو اپنی چکاچوند ٹھاٹھ باٹھ اور سحر انگیز بات چیت سے مسیحا لگتے ہیں۔چند سال اس سحر میں رہنے کے بعد عام آدمی طاقتور طبقے کی بندوق کی طاقت کو بھی اس لئے قبول کرتے ہیں کہ محکومی ان کی سوچ میں رچ بس گئی ہوتی ہے۔عام آدمی میں محکوم سوچ پیدا کرنے میں برسوں سے مولوی کا کردار بڑا اہم ہے۔ 1958 کے مارشل لاء اور بعد کے بلدیاتی نظام نے سیاست میں رشوت کی داغ بیل ڈالی اور گھٹیا الزام تراشی کی بنیاد رکھی گئی۔مادر ملت فاطمہ جناح پر آمر کے حامی سیاستدانوں نے اتنے گھٹیا الزامات عائد کئے کہ شیطان بھی شرمندہ ہے۔
گویا سیاست میں رشوت اور الزامات کا سہرا بھی آمر نے اپنے ماتھے پر سجایا۔پھر ذوالفقار علی بھٹو شہید کا دور آیا۔غریب اور عام آدمی کی کمزوریوں سے کھیلتے ہوئے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر کامیابی حاصل کی۔ روٹی، کپڑا اور مکان تو شاید نعرہ تھا لیکن عام آدمی کو عزت اور وقار سے جینے کی سوچ دی۔مزدور کو اولڈ ایج بینیفٹ اور سوشل سکیورٹی دی۔پہلی بار لیبر پالیسی دی جس کا پھر ایک آمر جنرل ضیا نے حلیہ بگاڑ دیا۔ سیاست کا بھیانک دور آمریت کے لبادے میں شروع ہوا جو 90 دن میں الیکشن کے وعدے سے ہوتا ہوا اسلام کے نفاذ کا چکمہ دے کربھٹو شہید کے عدالتی قتل اور 2 نمبر ریفرنڈم سے ناجائز پیدائش لے کرگیارہ سالوں میں سیاست میں سرمایہ داروں کو مسلط کرکے ختم شد ہوا۔خاتمہ بھی اس طرح کہ قوم پر اللہ کو رحم آگیا ورنہ ایسے سیاستدان جو اب جمہوریت کا نام جپتے ہیں وہ سب آمر کے کارندے تھے۔
تب سے اب تک صرف چہرے بدلے جمہوریت اور آمریت کا نظام رہا۔ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور مچا احتساب کے ادارے بنے جن کی کارکردگی انتقام کے شور میں دب گئی۔سیاست میں سرمایہ داروں کی انٹری سے الیکشن عام آدمی کے بس سے باہر ہو گیا۔ اشرافیہ اور کالا دھن رکھنے والوں کیلئے اس طرح سیاسی شاہراہیں کھولی گئیں اور ایک مراعات یافتہ طبقہ سیاسی چوراہوں پر قابض ہوگیا اور ووٹرز کو بے بس کر دیا گیا کہ وہ دو یا تین چوروں کے مابین سادھو تلاش کریں۔
ہماری ملکی سیاست ایک دائرے میں گھومتی ہے قرضے کرپشن مہنگائی الیکشن میں دھاندلی فوج کی مداخلت، بیروزگاری اورملک تنہا ہو گیا۔ سیاست کے پینترے ہیں70 سالوں سے حکومت سے اپوزیشن میں آنے والی ہر جماعت یہی نعرے لگا کرعوام کو بیوقوف بنا رہی ہے۔ اپوزیشن میں جو اچھا لگتا ہے اقتدار میں آتے ہی برا لگتا ہے۔ اپوزیشن میں عوام کے دکھ درد کے ساتھی اور اقتدار میں آتے ہی اشرافیہ کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ عوام کے نہیں صرف اپنی کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے 60 فیصد لوگ اس نظام کے تحت مجبور ہیں کہ وہ اپنی نمانٔندگی کیلئے کروڑوں اربوں پتی شخص کو منتخب کریں۔ان کے پاس انتخاب میں صرف یہ گنجائٔش ہوتی ہے کہ ’’بڑا‘‘ یا ’’چھوٹا‘‘ کس کو وہ اشرافیہ کلب میں پہنچائیں گے ایسی نمائٔندگی کے نتیجے اشرافیہ کلب میں عوام کی بات نہیں ہوتی۔اس لئے اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے جو انگریز ایک محکوم قوم کو دے گئے لیکن اس نظام کو بدلنے میں ’’اشرافیہ کلب‘‘ ہی رکاوٹ ہے اور رکاوٹ رہے گا کیونکہ اشرافیہ کو یہی نظام سہولیات فراہم کرتا ہے اور ان داتا کے رتبے پر فائزکرتا ہے۔
عوام تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات کیلئے بھی اشرافیہ کلب کے ارکان کی منت سماجت پر مجبور ہے۔ عوام اتنی بے بس ہوتی ہے کہ وہ گلی محلے کی سڑک، ںجلی گیس اور نکاسی آب جیسی بنیادی سہولیات کے بدلے ووٹ دینے اور بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں اور نظام کی کرپشن کی انتہا یہ ہیے کہ ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے رشوت ترقیاتی فنڈز کے نام پر دی جاتی ہے جبکہ عوام کو نچلی سطح پر نمائندگی سے محروم رکھنے کیلئے بلدیاتی الیکشن تک نہیں کرائٔے جاتے۔حتیٰ کہ اس آئینی تقاضا کو پورا کرنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں میں سے کوطد بھی اسمبلی میں آواز نہیں اٹھاتا۔ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے کے بعد آئین کی خلاف ورزی اور عوام سے منافقت کرتے ہیں۔ انصاف فراہم کرنے والے ادارے کبھی نظریہ ضرورت اور کبھی بوٹ والے کو آئین میں ترمیم کا حق دے کر عوام سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف اشرافیہ کے کام اور عام آدمی پر تشدد کرتے ہیں۔ اشرافیہ کے صحت اور تعلیم کے اپنے ادارے ہیں جبکہ استاد نے تعلیم ،مسیحا نے صحت اور صحافیوں نے صحافت کو تجارت بنادیا ہے۔احتساب کو انتقام کا رنگ دے کراشرافیہ اپنے لیے۔ راستے نکالتی ہے۔اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اشرافیہ کلب‘‘ کے زیر سایہ جینا چاہتی ہے یا اپنے حقوق کیلئے نظام بدلنا چاہے گی۔
( بشکریہ : روزنامہ بدلتا زمانہ )
فیس بک کمینٹ