سکردو : دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کا جمعہ کے روز سے بیس کیمپ، ٹیم اور اہل خانہ سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور ان کی تلاش میں شروع کیے گئے ریسکیو مشن کے دوران آرمی ہیلی کاپٹروں نے 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی ہے تاہم ابھی تک تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سیون سمٹ ٹریکس کے مینیجر داوا شرپا جو کے ٹو بیس کیمپ پر موجود ہیں، نے اب سے کچھ دیر قبل اپنے انسٹا گرام پر اطلاع دی کہ آرمی کے ہیلی کاپٹر نے تقریباً 7000 میٹر تک پرواز کی اور واپس سکردو لوٹ آئے۔
’بدقسمتی سے انھیں کوئی سراغ نہیں ملا اور پہاڑ حتیٰ کہ بیس کیمپ میں بھی موسم بہت خراب ہو رہا ہے۔ ہم مزید پیشرفت کے منتظر ہیں لیکن موسم اور ہوا چلنے کی اجازت نہیں دے رہے۔‘
داوا شرپا نے یہ بھی بتایا کہ علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بحفاظت کیمپ ون میں پہنچ گئے ہیں اور وہ بہت جلد ہی بیس کیمپ کی جانب بڑھیں گے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ساجد سدپارہ کی کسی بھی قسم کی مدد کے لیے انھوں نے اپنی ٹیم کے دو شرپاؤں کو تیار رہنے کا آرڈر دے رکھا ہے۔
یاد رہے الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق آرمی ایوی ایشن کے دو ہیلی کاپیٹرز نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا تھا اور اس سرچ آپریشن میں محمد علی سدپارہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے آٹھ کوہ پیما اور نیپال کے دو کوہ پیماوں بھی شریک ہونے کی اطلاع دی تھی۔محمد علی سد پارہ کے مینجر راؤ احمد نے صحافی زبیر احمد سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ جمعے سے ان کا کوہ پیماؤں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور وہ ’ساری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
بی بی سی کو محمد علی سدپارہ، ان کے ساتھی کو پیما آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جے پی موہر کے قریبی عزیزوں اور ٹیم نے بتایا کہ تینوں نے جمعے کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کر لیا تھا جس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔
کرار حیدری کے مطابق علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ ابھی بھی چھ ہزار میڑ کی بلندی پر کیمپ تھری میں ہیں اور ان کا بھی تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطہ نہیں ہوا ہے۔ وہ اب بیس کیمپ میں واپس آرہے ہیں۔واضح رہے کہ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ نیچے کیمپ تھری پر آ گئے۔ٹورسٹ پولیس سکردو کے مطابق ان تینوں کی تلاش کا آپریشن شروع کیا جاچکا ہے اور تمام تر ممکنہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔
تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطے کے لیے جان سنوری کے پاس موجود ٹریکر کے علاوہ تینوں کے پاس موجود سیٹلائیٹ فون اور واکی ٹاکی کا استعمال کیا جاتا تھا۔رابطوں کے لیے جان سنوری اپنے پاس موجود ٹریکر ہر ایک گھنٹے بعد آن کر کے اطلاع فراہم کردیتے تھے۔ انھوں نے جمعہ کے روز آخری مرتبہ اپنی موجودگی کی اطلاع چار بجے فراہم کی تھی۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ نیپالی مہم جووں کی جانب سے کے ٹو کو سردیوں میں تاریخ میں پہلی مرتبہ فتح کرنے کے بعد محمد علی سد پارہ اور دو ساتھیوں نے اپنی مہم جاری رکھی تھی۔ اس مہم کے دوران جمعہ کے روز موسم بہتر ہونے کی بنا پر تینوں آگے بڑھے تھے۔تاہم الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق جمعہ کے روز دوپہر کے وقت اچانک کے ٹو پر تیز ہواہیں چلنا شروع ہوگئیں تھیں۔محمد علی سد پارہ اور ساجد علی پارہ باپ بیٹا ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان میں سکردو کے علاقے سد پارہ سے ہے۔ سد پارہ کا علاقہ مہم جوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔محمد علی سد پارہ کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنھوں نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔ان کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کو کے ٹو اور ماوئنٹ ایورسٹ فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ساجد علی سد پارہ نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ