’’فیک نیوز‘‘ کا زمانہ ہے۔ نامی گرامی اخبارات (جنہیں Xکا مالک ایلان مسک حقارت سے Legacy Mediaپکارتا ہے) میں چھپی ہوئی ’’خبر‘‘ پر بھی اعتبار کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ بذات خود اگرچہ اسی صنف کے میڈیا کی چاکری میں گزاردی ہے۔ پروف ریڈنگ سے شروع ہوکر ٹیلی پرنٹر سے آئی خبروں کے اردو ترجمے کے بعد رپورٹنگ کی جانب منتقل ہوا۔ اپنی خبر ٹائپ کرکے نیوز روم کے حوالے کرتا تو خبر کی صداقت ثابت کرنے کے لئے طلب کیا جاتا۔ ’’خبر‘‘ کو درست ثابت کرنے کے باوجود اسے صبح کے اخبار میں دیکھنا نصیب نہ ہوتا کیونکہ اس کی وجہ سے ادارے پر عتاب نازل ہوسکتا تھا۔ پھونک پھونک کر چلنے والی صحافت سیکھنے کے باوجود عمر کے آخری حصے میں اب خوف یہ لاحق رہتا ہے کہ میری دی خبر ’’فیک‘‘ قرار پائی تو فروری 2024ء سے حق وصداقت فروغ دینے کے لئے قائم ہوا حکومتی بندوبست معاف نہیں کرے گا۔ تین سال سزا اور 20 لاکھ روپے جرمانے کا خوف مجبور کر رہا ہے کہ صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے بجائے سبزیوں کی ریڑھی لے کر گلی گلی صدائیں لگانا شروع کردوں۔ پیشہ بدلنے کی مگر ہمت نہیں رہی۔
ہفتے کی صبح گھر پر آیا اخبارات کا پلندہ اٹھایا تو حسب معمول ’’نوائے وقت‘‘ سے آغاز کیا۔ اس میں خبر چھپی تھی کہ کراچی میں مقیم چند چینی سرمایہ کاروں نے سندھ ہائی کورٹ کے سامنے ایک فریاد رکھی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ شہر قائد کی پولیس ان سے سکیورٹی کے نام پر ’’بھتہ‘‘ طلب کرتی ہے۔ وہ اسے فراہم کرنے کو رضا مند نہ ہوں تو چینی سرمایہ کاروں کو لاحق خطرات کو جواز بناتے ہوئے ان کی قیام گاہوں کے باہر نصب دروازوں پر قفل لگا دئیے جاتے ہیں۔ اپنی مشکلات تفصیل سے بیان کرنے کے بعد فریاد کنندگان نے دھمکی یہ بھی دی کہ اگر کراچی پولیس نے ان کے ساتھ مبینہ طورپر اپنایا رویہ برقرار رکھا تو وہ لاہور منتقل ہوجائیں گے۔ چند افراد اگرچہ پاکستان ہی کو الوداع کہنے کا سوچ رہے ہیں۔
’’نوائے وقت‘‘ میں چھپی خبر پڑھی تو اپنے ہی اخبار میں نمایاں طور پر شائع ہوئی خبر پر اعتبار نہ آیا۔ حالانکہ 1964ء کے صدارتی انتخاب کے دوران میرے والد مرحوم نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی عقیدت میں ہمارے ہاں کئی برسوں سے آنے والے ایک اخبار کی جگہ ’’نوائے وقت‘‘ خریدنا شروع کردیا تھا۔ وجہ ہم بچوں کو مرحوم والد نے یہ بتائی تھی کہ بقیہ اخبارات ان کی دانست میں خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے دبائو میں آکر مادرملت کی انتخابی مہم کو تقریباََ نظر انداز کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اْن اخبارات میں قائد اعظم کی بہن کے بارے میں گھٹیا زبان بھی استعمال ہورہی تھی۔ ’’نوائے وقت‘‘ پر1964ء سے دل میں پیدا ہوئے اعتماد کے باوجود یاد کرنے کو مجبور ہوا کہ انسانوں سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ رپورٹر کو مغالطہ ہوگیا ہو۔ اس کی دی خبر دیر سے فائل ہوئی۔ سب ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر اور بالآخر ایڈیٹر بھی کماحقہ انداز میں اس کی چھان پھٹک نہ کر پائے۔
’’نوائے وقت‘‘ کو چھوڑ کر گھر میں آئے اخبارات کے پلندے سے باقی اخبارات میں اسی خبر کو ٹٹولنا شروع ہوگیا۔ انگریزی کے ایک مؤقر روزنامہ میں جس کا ہیڈ کوارٹر کراچی ہی میں ہے چینی باشندوں کی سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی خبر بلکہ بہت ہی زیادہ تفصیلات کے ساتھ چھپی تھی۔ ’’نوائے وقت‘‘ کی خبر پڑھ کر جو وسوسے دل میں آئے تھے ان کے بارے میں شرمسار ہوا۔ اخبارات کے پلندے کو وہیں چھوڑ کر سوچ بچار کو مجبور ہوگیا۔
1980ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی میں خارجہ امور کے بارے میں بھی رپورٹنگ کرنا شروع ہوگیا تھا۔ عوامی جمہوریہ چین بھی دوبار حکومت چین کی دعوت پر اور تین مرتبہ پاکستانی وزرائے اعظموں کے ساتھ جا چکا ہوں۔ ایک بار نجی حیثیت میں جاپان جاتے ہوئے تقریباََ ایک ہفتہ اس ملک میں گزارا۔ سکول کے زمانے سے ’’چین اپنا یار ہے۔اس پر جان بھی نثار ہے‘‘ والا مصرعہ بھی یاد ہے۔ اس کے علاوہ ’’ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی‘‘ کا فقرہ جو پاکستان اور چین کے سرکاری وفد کے مابین ملاقاتوں کے دوران بارہا دہرایا جاتا ہے۔
نواز شریف کی تیسری حکومت کے دوران سی پیک کا ذکر بھی تواتر سے شروع ہوگیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ چین کے صدر کی ’’ون بیلٹ-ون روڈ‘‘ کی تمنا ہمارے ہاں اس ملک سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا سبب ہوگی۔ متوقع سرمایہ کاری کے لئے جو منصوبے بنائے گئے انہیں ’’سی پیک‘‘ پکارا گیا۔ اپریل 2016ء میں لیکن ’’پانامہ دستاویزات‘‘منظر عام پر آئیں تو تیسری بار وزیر اعظم ہوئے نواز شریف کے معاونین اور مداحین نے مجھ سادہ لوح کو یہ سمجھانے کی کوشش شروع کردی کہ مذکورہ دستاویزات میں نواز شریف کا نام ہی موجود نہیں۔ کئی اور سربراہان مملکت و حکومت کے نام لئے گئے ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر ملکوں میں اپنی ’’کرپشن‘‘ کی بدولت کمائی مختلف بینکوں میں چھپارکھی ہے۔ بدعنوانی سے کمائی رقوم سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن جیسے شہروں میں قیمتی جائیدادیں بھی خرید رکھی ہیں۔ دنیا کے کسی اور ملک نے مگر پانامہ پیپرز میں عیاں ہوئی ’’کرپشن‘‘ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پاکستان میں لیکن ان دستاویزات کی وجہ سے طوفان برپا ہوگیا۔ وجہ اس کی ملک دشمن قوتیں بتائی گئیں جو چین کی پاکستان میں سی پیک کے نام پر گرانقدر سرمایہ کاری سے خوش نہیں۔
ہفتے کے دن مگر ملک کے تمام اخبارات میں جو خبر پڑھی وہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ پاکستان میں ممکنہ چینی سرمایہ کاری کی حقیقی حوصلہ شکنی غیر ملکی سامراجی قوتوں کے ذریعے نہیں بلکہ کراچی پولیس کے ہاتھوں سرزد ہورہی ہے۔ شرمناک حقیقت یہ بھی ہے کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی 2008ء سے مسلسل اقتدار میں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت امن وامان کی کامل ذمہ دار صوبائی حکومت ہے اورپیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پاک چین دوستی کا حقیقی معمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہاتھوں چینی سرمایہ کاروں کی پریشانی حیران کن محسوس ہوئی۔ میری فکر مگر یہاں ختم نہیں ہوئی۔ چین کے سیاسی نظام کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ اپنے سفارت خانے سے منظوری کے بغیر چینی سرمایہ کار ایک وکیل کی لکھی درخواست کے ساتھ کراچی پولیس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا نہیں سکتے تھے۔ مختصراََ یوں کہہ لیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے رضا مند چینیوں کو ان کی حکومت کوئی ٹھوس مدد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ میرے ذہن میں آیا یہ وسوسہ اگر درست ہے تو خدارا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ پاکستان میں کسی اور ملک کا سرمایہ کار کیوں آئے گا؟
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ