آپ جو کالم اس وقت پڑھ رہے ہیں اتوار کی صبح اٹھ کر لکھا گیاتھا۔ پیر کی صبح چھپے تمام کالموں کے ساتھ ایسے ہی ہوتا ہے۔ اتوار لہٰذا میرے لیے چھٹی کا روز نہیں۔ اس کی صبح بلکہ مجھے مشقت کرنا ہوتی ہے۔ جمعہ اور ہفتہ مگر دو ایسے دن ہیں جن کا میں بے چینی سے منتظر رہتا ہوں۔ ان دو دنوں میں ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ’خبروں‘ سے دور رہوں۔ موبائل کو سائلنٹ موڈ میں رکھ کر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں سے بھی دور رہوں۔ گزرے جمعہ اور ہفتے کے روز مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
گزشتہ ہفتے کا آغاز ہوتے ہی بھارتی وزیر اعظم فرانس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے بعد واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے بعد وہ وزیر اعظم جاپان کے علاوہ تیسرے غیر ملکی رہنما تھے جن کے ساتھ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اہم امور پر بات چیت کا فیصلہ کیا۔ پاک-بھارت تعلقات پر 1984ء سے گہری نگاہ رکھنے کی وجہ سے جبلی طورپر خود کو لہٰذا سی این این کے علاوہ سوشل میڈیا سے دور نہ رکھ پایا۔ واشنگٹن پہنچتے ہی مودی نے پہلی ملاقات تلسی گبارڈ سے کی۔ یہ خاتون کبھی ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے کانگریس کی رکن منتخب ہوا کرتی تھیں۔ بعد ازاں اسی جماعت کی جانب سے صدارتی انتخاب میں امیدوار کے طورپر نامزد ہونا چاہا۔ ناکام رہیں تو مایوس ہوکر ٹرمپ کی حامی بن گئیں۔
تلسی کی والدہ نے ہندومذہب اختیار کیا تھا۔ ان کی بیٹی بھی اسی مذہب کی کٹرپیروکار ہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ہندوئوں کی مقدس کتاب -گیتا- اٹھاکر تلسی نے امریکی کانگریس کے رکن ہونے کا حلف لیا تھا۔ ٹرمپ نے اسے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کے عہدے پر تعینات کیا ہے۔ یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ امریکہ کی 18انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے جمع شدہ معلومات کا خلاصہ لے کر ہر صبح امریکی صدر سے ملاقات کے دوران دنیا کی واحد سپرطاقت کے سربراہ کے دن کا ایجنڈا طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ مودی نے تلسی سے ملاقات کے بعد ایکس کے لیے ایک پیغام لکھا۔ مذکورہ پیغام میں تلسی کو امریکا اور بھارت کے مابین دوستانہ تعلقات فروغ دینے والی مشنری پرچارک قراردیا۔ اس ضمن میں انگریزی کا لفظ Votaryاستعمال کیا۔ بنیادی طورپر یہ لفظ کسی مذہب کی تبلیغ کے لیے زندگی وقف کرنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مودی کے لیے تلسی کی تعریف میں ٹویٹ لکھنے والے نے انگریزی زبان پر ماہرانہ گرفت کے ذریعے پیغام یہ اجاگر کیا کہ تلسی گبارڈامریکا اور بھارت کے مابین دوستی کے فروغ کو مذہبی فریضہ تصور کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ تلسی نے امریکی فوج میں بھی خدمات سرانجام دے رکھی ہیں۔ فوجی پس منظر کے ساتھ امریکا کی 18اور اس کے اتحادیوں کی بے تحاشا انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے جمع شدہ معلومات کا جائزہ لیتے ہوئے وہ ٹرمپ کی خارجہ امور کے بارے میں ذہن سازی میں اہم کردارادا کرے گی۔ ہمارے اخبارات میں لیکن جناتی انگریزی میں عالمی امور کی بابت لکھنے والوں نے مگر تلسی کی شخصیت اور عہدے پر کماحقہ توجہ نہیں دی۔ ٹرمپ- مودی ملاقات کے اختتام پر ان دونوں نے مل کر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس کے دوران چند بھارتی صحافیوں نے ’انگریزی زبان‘ میں جو سوالات اٹھائے ان کا ’انگریزی ہی میں ترجمہ‘ ہونے کے باوجود ٹرمپ انھیں سمجھ نہ پایا۔ ہم پاکستانیوں نے انگریزی کا انگریزی ہی میں ترجمہ ہونے والے لمحات سے بہت لطف اٹھایا۔ سوشل میڈیا پر اس کی بنیاد پر چسکا فروشی میں مصروف رہے۔
ذات کے اس رپورٹر کے لیے نہایت اہم مگر مذکورہ ملاقات کے اختتام پر جاری ہوا مشترکہ اعلامیہ تھا۔ اس بھاری بھر کم دستاویز کو غور سے پڑھ کر میں نے کچھ نوٹس بھی لیے۔ فیصلہ کیا کہ اتوار کی صبح اٹھنے کے بعد امریکا اور بھارت کی جانب سے مشترکہ طورپر جاری ہوئے ان نکات کا تفصیلی ذکر کروں گا جو میری دانست میں پاکستان کے لیے ’اچھی خبر‘ نہیں۔ کئی برسوں کے بعد کسی مشترکہ اعلامیہ کو ایسے طالب علم کی طرح پڑھا جیسے صبح اُٹھ کر بھارت-امریکہ تعلقات کے بارے میں امتحانی سوالات کے جواب لکھنا ہوں۔
تین سے زیادہ گھنٹوں تک پھیلا ہوم ورک مکمل کیا تو لیپ ٹاپ بند کرکے ٹی وی کھول لیا۔ اس وقت ٹی وی چینلوں کا شام سات بجے کے بعد والا نام نہاد ’پرائم ٹائم‘ شروع ہوچکا تھا۔ اس ’پرائم ٹائم‘ میں سب سے زیادہ توجہ شیر افضل مروت کو دی جارہی تھی۔ تحریک انصاف کے اس بانکے رہنما کو جو میری دانست میں پیدائشی ’میڈ فار ٹک ٹاک سیاستدان‘ ہیں یوں زیر بحث لایا جارہا تھا جیسے ان کی اپنی جماعت کے چند سرکردہ رہنمائوں کے ہاتھوں ’تذلیل‘ عمران خان کی سیاست کو شدید نقصان پہنچاسکتی ہے۔ میں نے اکتاکر ریموٹ کا بٹن دبا کہ ٹی وی آف کردیا اور کمرے میں تنہابیٹھا خود پر لعنت ملامت میں مصروف ہوگیا۔ سنجیدگی سے یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ ا مریکا اور بھارت کی جانب سے جاری ہوئے مشترکہ اعلامیہ کو غور سے پڑھ کر نوٹس لینے سے کیا حاصل۔ ہمارے قارئین وناظرین کی بے پناہ اکثریت کو جبکہ شیر افضل مروت جیسے بانکوں کا ذکر درکار ہے۔ ’بانکا‘ خدا کے لیے توہین آمیز لفظ قرار نہ دیا جائے۔ یہ انگریزی لفظ Dandy کا اردو ترجمہ ہے۔ ’ترچھی ٹوپی والے‘ اپنی ’وکھری‘ طبیعت وانداز کی وجہ سے ’بانکے‘ کہلاتے ہیں۔ ایسے افراد ٹک ٹاک متعارف ہونے سے کم از کم تین صدی قبل دنیا میں پہچانے جاتے تھے ۔
جمعہ کا دن ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر شیر افضل مروت نے رش لیا تو ہفتہ کی صبح ا ڈیالہ جیل کے باہر فواد چودھری کی تحریک انصاف کے ایک اور جیالے شعیب شاہین کے ساتھ ’گھسن مکی‘ ہوگئی۔ ان دونوں کے مابین ہوئے جھگڑے کو بنیاد بناتے ہوئے ٹی وی سکرینوں پر براجمان ’تجزیہ کار‘ یہ طے کرنے میں مصروف ہوگئے کہ تحریک انصاف کے سرکردہ رہنمائوں کے درمیان تلخ سے تلخ تر ہوتے ہوئے اختلافات پاکستان کی مقبول ترین جماعت کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ’ازلی دشمن‘ ٹھہرائے ملک کا وزیر اعظم امریکی صدر سے ملاقات کی بدولت کیا حاصل کرپایا ہے؟ اس سوال کو سنجیدگی سے زیر بحث لانے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورئہ امریکا کے بارے میں ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائی بے اعتنائی نے مجھے مجبور کیا کہ بین الاقوامی امور کے طالب علم کی طرح بھارت-امریکا کی جانب سے جاری ہوئے مشترکہ اعلامیہ کو غور سے پڑھ کر میں نے جو نوٹس تیار کیے تھے انھیں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں۔ کالم لوگوں کے لیے لکھا جاتا ہے اور بھارت کے امریکا کے ساتھ گہرے ہوتے تعلقات پر نظر بظاہر ہمارے قارئین توجہ دینے کو تیار نہیں ۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ