بحث بہت پرانی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں تو اب یہ گفتگو ہی نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں ہر تھوڑے عرصے بعد اِس کا غلغلہ ضرور اٹھتا ہے، تعجب اِس بات پہ نہیں کہ یہ بحث کیوں ہوتی ہے حیرانی اِس بات پر ہوتی ہے کہ بہت ہی پڑھے لکھے، قابل اور سمجھدار لوگ، جو پاکستان کے دیگر مسائل پربغیر کسی لگی لپٹی کے درست موقف رکھتے ہیں، اِس معاملے میں پٹری سے اتر جاتے ہیں اور یوں گفتگو کرنے لگتے ہیں کہ اُن میں اور ڈونلڈ ٹرمپ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نمونے کے طور پر ملاحظہ ہو ایک ٹویٹ: ’’میری نہایت دیانتدارانہ اور سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ عوام و خواص میں سے کوئی بھی اس پر یقین نہیں رکھتا یا کم از کم جمہوری اصولوں اور طریقوں پر عمل کرنے کو تیار نہیں جو زیادہ تر مغرب سے درآمد شدہ ہیں۔ پاکستان کے مسائل گمبھیر اور پیچیدہ ہیں، پاکستان کے سیاستدان نہ اِن مسائل کو حل کرنے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی اُن میں اِس کی صلاحیت ہے۔ دراصل ہمیں ماہرین کی حکومت کی ضرورت ہے، انڈونیشیا 1966 میں یہ تجربہ کرچکا ہے، اُس نے تیس سال سے زائد عرصے تک یہ نظام چلانے کے بعد جمہوریت کی حتمی واپسی کی راہ ہموار کی۔ لوگ اپنی مرضی کے مطابق نعرے تو لگا سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اڑتالیس مسلم اکثریتی ممالک میں سے صرف تین میں جمہوریت کی کچھ نہ کچھ شکل موجود ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کی ناکامی کی ٹھوس وجوہات ہیں جن کا ہمیں سامنا کرنا چاہیے نہ کہ کبوترکی طرح آنکھیں بند کرلینی چاہئیں۔‘‘
جن صاحب نے یہ ٹویٹ کی ہے وہ صاحبِ نظر ہیں اور ہر معاشی اور سماجی مسئلے پر دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں جسے رد کرنا عموماً مشکل ہوتا ہے، توانائی کا بحران ہو یا مرکزی بینک کا شرح سود گھٹانے کا معاملہ، برآمدات بڑھانے کا گھن چکر ہو یا اشرافیہ کو دی جانے والی سبسڈی، ہر مسئلے پر اُن کی رائے مدلل ہوتی ہے جو وہ ناقابل تردید اعدادو شمارکے ساتھ بیان کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن سے اختلاف کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم اِس جمہوریت والے معاملے میں اُنہوں نے وہی بنیادی غلطی کر دی جو ہمارے اکثر دانشور خواتین و حضرات کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف یہ دلیل کوئی نئی نہیں ہے، البتہ اِس دلیل میں ایک مفروضہ پوشیدہ ہے اور وہ مفروضہ یہ ہے کہ میں چونکہ ایک معزز اور تعلیم یافتہ آدمی ہوں، انگریزی میں ٹویٹ کر سکتا ہوں، میرے پاس ڈگریاں ہیں اور بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے کا تجربہ، اِس لیے جب میں جمہوریت میں اپنا ووٹ کسی کو دوں گا تو وہ بہت سوچ سمجھ کر محض ملکی مفاد کے تابع دوں گا البتہ وہی ووٹ اگر کوئی تانگے والا، فٹ پاتھ پرپیدا ہونے والا، ان پڑھ، غریب اور ناخواندہ شخص دے گا تو ظاہر ہے کہ اُس میں وہ بات کہاں ہوگی مولوی مدن کی سی، اِس لیے وہ اپنا ووٹ ضائع کر دے گا، پس ثابت ہوا کہ پاکستان میں جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ اگر ملک چند برسوں کیلئے (کم از کم دس سال) اہلِ نظر اور صاحب علم لوگوں کے ایک نیک نیت گروہ کے حوالے کر دیا جائے جو پوری جانفشانی اور تندہی سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا روڈ میپ بنائیں اور پھر اُس پر عمل کرکے ملک کو اِس گرداب سے نکالیں، تو اُس کے بعد ہم غریب غربا اور کمی کمین لوگوں کو ووٹ کا حق دینے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر جمہوریت کے ’ثمرات‘ بھگتنے کیلئے تیار رہیں۔
اِن دونوں مفروضوں میں جان نہیں ہے۔ برطانیہ میں 1215ء میں میگنا کارٹا پر دستخط کیے گئے تھے، اُس وقت کے برطانیہ کی شرح خواندگی کے درست اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ 1215ء کے برطانیہ میں خواندگی کی شرح آج کے پاکستان سے بہرحال کم تھی، وہ برطانیہ اُسی طرح ملاؤں اور اشرافیہ کے چُنگل میں تھا جس طرح آج کا پاکستان ہے، یا شاید اِس سے بھی بدترحالت میں۔ اگر اُس وقت بھی برطانیہ کے دانشوروں کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو نہ میگنا کارٹا پر دستخط ہوتے اور نہ برطانیہ دنیا کی بہترین جمہوریت بننے کا دعویٰ دار ہوتا۔ پاکستان میں جمہوریت اِس لیے ناکام نہیں ہوئی کہ یہاں ان پڑھ اور گنوار لوگوں نے اپنے ووٹ کا درست استعمال نہیں کیا یا جمہوریت اُن کے خمیر میں نہیں، بلکہ یہاں جمہوریت اِس وجہ سے نہیں پنپ سکی کہ 1958ء، 1971ء، 1979ء اور 1999ء اور اُس کے بعد تک جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ یہ برابر میں ہندوستان نامی ملک ہے، 77برس پہلے ہم اُس کا حصہ تھے، وہاں جمہوریت چل رہی ہے،حالانکہ اُن کی اسمبلیوں میں ہم سے کہیں زیادہ نالائق اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ارکان منتخب ہو کربیٹھے ہیں ، مگر اِس کے باوجود جمہوریت نتائج دے رہی ہے، اور ہم یہاں کہتے ہیں کہ یہ نظام ہمارے لیے نہیں بنا، چہ خوب! دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں ’پروفیشنل حضرات‘ کی کابینہ والا تجربہ بھی ہوچکا ہے، اور یہ تجربہ ڈکٹیٹرز کی زیر نگرانی کئی برسوں تک کیا گیا مگر نتیجہ صفر بٹا صفر۔ ایک سے ایک پڑھا لکھا وزیر ہوتا تھا آمروں کی کابینہ میں جو یہ مشورے دیا کرتا تھا کہ ملک میں ایمرجنسی کیسے لگانی ہے اور عوام کے بنیادی حقوق کیسے سلب کرنے ہیں!
دراصل یہ مسئلہ اب جمہوریت، بادشاہت، خیر اندیش آمر اور ہائبرڈ نظام کی بحث سے آگے نکل چکا ہے۔ دنیا میں بادشاہتیں بھی ہیں جو کامیابی سے چل رہی ہیں، یہ اور بات ہے کہ اگر اِس کامیابی میں سے تیل اور امپورٹ کیے ہوئے غلام نکال دیں تو باقی فقط صحرا ہی بچتا ہے، اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں ڈکٹیٹر شپ بھی فراٹے بھر رہی ہے، اور مغربی ممالک تو خیر اپنی جمہوریت کے بل بوتے پر ہی دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں، مگر مسئلہ ہمارا ہے کہ یہاں کوئی بھی نظام جڑ نہیں پکڑ سکا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ خادم کئی مرتبہ بیان کر چکا ہے کہ آپ کتنی ہی مکمل دستاویز کیوں نہ بنا لیں اور حکمرانوں کے حلف نامے کتنے ہی جامع کیوں نہ کر دیں ، جب تک لوگوں کے دلوں میں آئین اور جمہوریت کا تقدس پیدا نہیں ہوگا اُس وقت تک یہ حلف نامے، میثاق اور دستاویزات بیکار رہیں گی۔ اور اگر لوگوں کے دلوں میں آئین کی حرمت ہوگی تو پھر چاہے زبانی قانون کیوں نہ جاری کردیں، لوگ اُس پر عمل کریں گے، یہی میگنا کارٹا تھا۔ لہٰذا ہمیں ایک میگنا کارٹا کی ضرورت ہے، جمہوریت کے خلاف ٹویٹ کی نہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ