بھارتی حکومت کی نسل پرستی اور مسلم دشمنی اب دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ناروا اور غیر انسانی سلوک پر تو اب دنیا چیخ اٹھی ہے مگر مودی سرکار جانے کس مٹّی کے بنے ہیں کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس مضمون میں دو بہت مشہور بین الا قوامی اخبارات میں چھپی خبروں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بھارت سرکار مجرمانہ حد تک مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہے۔ نیویارک ٹائمز اور گارجین نے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ بد ترین نسلی تعصب اور تشدد کے واقعات پر شہہ سرخیاں لگائی ہیں، جو اس بات کی علامت ہیں کہ بھارت میں مسلمانو ں کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک ہو رہا ہے۔ جس پر اب عالمی میڈیا بھی بول رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ پورے بھارت میں مسلمانوں پر کرونا وائرس پھیلانے کے الزام میں حملے کئے جا رہے ہیں۔ تعصب پرست بھارت کی وزارت صحت نے یہ الزام لگایا تھا کہ مسلمان بھارت میں کرونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد بیانات پر تشدد کاروائیوں کو ہوا دینے کا ذریعہ ہیں، اور انتہا پسندوں کیلئے مسلم کش کاروائیوں کا اجازت نامہ ہوتا ہے، جو ویسے ہی مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے تکلیف پہنچانے کے منتظر رہتے ہیں۔ نئی دہلی میں ایک مسلمان نوجوان صرف اس لئے مار دیا گیا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں میں کھانا تقسیم کر رہا تھا۔ اسی طرح دیگر مسلمان بھی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں، انہیں گھروں سے سے زبردستی نکالا جا رہا ہے، مساجد پر حملے کئے جا رہے اور مسلمانوں کو کرونا پھیلانے کیلئے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جسے ہندو انتہا پسند کرونا جہاد کا نام دے رہے ہیں۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی مسلم دشمنی میں آگے آگے ہیں اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مسلمانوں سے کوئی دودھ نہ خریدے کیونکہ مسلمانوں کا دودھ کرونا زدہ ہے۔ مسلمانوں خلاف اسی طرح کے نفرت انگیز پیغامات سوشل میڈیا پر بھی پھیلائے جا رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کا یہ الزام ہے کہ ملک میں ایک تہائی کرونا مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کی وجہ سے پھیلا ہے، جن کا مارچ میں ایک بڑا اجتماع ہوا تھا۔ اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ مسلمانوں پر حملے بھارتی حکومت کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد شروع ہوئے جس میں حکومت نے یہ دعوی کیا تھا کہ آٹھ ہزار سے زیادہ کیسز مسلمانوں کے ہیں۔ محمد حیدر جو ایک مسلمان دودھ فروش ہے بتاتا ہے کہ خطرات نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں پر تشدد کا ہندو انتہا پسند بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ مسلم دشمن انتہا پسندوں کو مودی سرکار کی پوری پشت پناہی حاصل ہے، جس کا بھر پور فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے خلاف الزامات کا انبار لگا دیا جاتا ہے۔ ان الزامات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے، جو ہندو اکثریتی معاشرے میں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ اور ہندو انتہا پسند جنہیں مکمل سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔ مسلمان بھارت کی بہت بڑی اقلیت ہے مگر ان کے حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ نیویارک ٹائمز یہ بھی لکھتا ہے کہ بھارتی وزارت صحت نے جوابی کاروائی کے خدشے کے پیش نظر اب تبلیغی جماعت کے خلاف جھوٹا اور منفی پروپیگنڈہ بند کر دیا ہے ۔
اخبار گارجین لکھتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے بے بنیاد خدشات اور جھوٹی افواہوں کی بنیاد پر ایک 22 سالہ لڑکے کو صرف اسلئے جان سے مار دیا کہ انہیں خدشہ تھا کہ وہ کرونا وائرس پھیلانے کا سبب بنے گا۔ امر استعجاب یہ ہے کہ ابھی کرونا پھیلایا نہیں تھا، صرف اندیشہ تھا، محض اندیشہ کے پھیلا سکتا ہے، کیونکہ وہ ایک بذہبی اجتماع سے ہو کر آیا تھا۔ لڑکے کے گھر والوں نے بتایا کہ جس ہجوم نے علی کا قتل کیا وہ اسے پہلے قریبی مندر لے گئے اور تشدد کے ذریعے اسے اسلام چھوڑ کر ہندو دھرم اپنانے کا کہتے رہے، وہ یہ بھی کہتے رہے کہ بتاؤ اور کون کون ہے جو کرونا جہاد میں شامل ہے، اس کے گھر والے بہت ہی شدید ذہنی اور روحانی اذیت کا شکار ہیں کہ وہ پولیس میں رپورٹ بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ہندو انتہا پسند ان کا جینا بھی مشکل کردیں گے۔ ایک پولس آفیسر نے بتایا کہ علی کو دہلی کے کرونا آئسولیشن میں رکھا گیا تھا مگر وہ کرونا زدہ نہ تھا تو اسے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ گارجین لکھتا ہے کہ علی پر حملہ مسلمانوں کے اس احتجاج کا ردعمل تھا جو مسلمانوں نے بلا ثبوت کرونا پھیلانے کے الزام لگائے جانے پر کیا تھا۔
گارجین چند ہفتے پہلے دہلی میں ہونے والے مسلم کش واقعات کا تذکرہ بھی کرتا ہے جس میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا، زندہ جلایا گیا، جائیداد و املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
گارجین لکھتا ہے کہ معاملہ کی وجہ یہ بنی کہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے حکومت کی اجازت سے ایک اجتماع کا انعقاد کیا تھا، جس میں قریب 8000 لوگوں نے شرکت جن میں غیر ملکی بھی تھے۔ پولیس نے ان سب لوگوں کو قرنطینہ میں رکھ دیا تھا پولس نے ان سے تعلق رکھنے والے قریب 27000 لوگوں کو بھی تفصیلی چیک کیا، انڈین سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر الزام بالکل بے بنیاد ہے اور موجود اعداد و شمار کے تجزیئے سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ کرونا وائرس کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں امر حیرت یہ ہے کہ حکومتی سینئر ارکان بغیر مصدقہ معلومات کے اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ یہ تبلیغی ملک میں جان بوجھ کر کرونا پھیلا رہے ہیں، وہ اسے کرونا دہشتگردی کا نام دیتے ہیں، اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ تمام تبلیغی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو پھانسی دیدینا چاہئے یا گولی مار دینا چاہئے۔ وہ ان لوگوں کو خود کش بمبار گردانتے ہیں۔ ایک اور الزام جو ہندو انتہا پسند لگا رہے تھے وہ یہ تھا کہ جو مسلمان ہسپتال کے قرنطینہ میں ہیں وہ ہسپتال اسٹاف کو بھی کرونا میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، اور اس مقصد کیلئے وہ اپنا تھوک چیزوں پر لگا رہے ہیں، اپنا پیشاب بوتلوں میں بھر کر ادھر ادھر پھینک رہے ہیں۔ گوکہ فوراً ہی یہ تمام افواہیں بھی غلط ثابت ہو گئیں کہ مسلمان تبلیغی جو قرنطینہ میں ہیں اس قسم کی کسی بھی غیر اخلاقی حرکت میں ملوث نہیں ہیں۔ ان تمام تر حقائق کے سامنے آجانے کے باوجود بھارت میں مسلمان زبردست اکیلے پن کا شکار ہین اور بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ حکومتی ارکان کا بد تریں متعصب رویہ اور ان کے غیر ذمہ دارانہ اور مسلم دشمن بیانات ہیں، جن کو آڑ بنا کر ہندو تشدد پسند قوتیں مسلمانوں پر ظلم کرنے نکل پڑتے ہیں۔
BJP حکومت اپنی تمام تر قوتیں بھارت میں مسلمانوں کو کچلنے پر صرف کر رہی ہے، ان کے ہتھیار بند غنڈوں کو حکومتی مشینری کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور وہ جو مرضی کر گزریں ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا، الٹا مظلوم مسلمانوں کو تشدد و تزلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کی آڑ میں مسلمانوں کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر یہ بات عام کی جا رہی ہے کہ مسلمانون کے ساتھ کوئی خرید و فروخت نہیں کریگا، چاہے وہ ایک ریڑھی بان پھل فروش ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے میں اگر کوئی مسلمان غریبوں کی مدد کرنا چاہے تو اسے بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور اس میں مر د عورت کی رعایت بھی نہیں برتی جاتی۔ تعصب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ باقاعدہ مسلم دشمن مہم سازی کی جا رہی ہے بڑے بڑے بینرز آویزاں کئے جارہے ہیں اور ایک گاؤں جس کا نام انکاناھالی ہے کے سرپنچ نے تو ہندؤں کو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر گاؤں کے کسی ہندو نے مسلمان سے کسی بھی قسم کا میل جول رکھا تو اس پر پانچ سو سے ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔
بھارتی حکومت مسلمانون کو پریشان کرنے اور تکلیف دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اب کرونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کا ہر طرح کا استحصال کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو تیسرے درجے کے شہری بنانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ گارجین نے اپنے 180 ممالک میں بسنے والے قارئین سے ان کی رائے کی درخواست کی ہے کہ وہ بھی اپنی منصفانہ رائے کا اظہار کریں، کیونکہ گارجین نے پوری ذمہ داری اور ایمانداری سے صحافت کی ذمہ داری پوری کردی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں روا رکھی جانے والی متعصب پالیسیوں کو آشکار کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے بہت سے عالمی تحقیقی اداروں کی مدد بھی لی ہیں۔
فیس بک کمینٹ