عام حالات میں لوگ اختلافات کا شکار رہیں، بات بات پہ راستہ بدلنے کوبے چین دکھائی دیں،کسی صورت یکجا اورمتحد ہونے پر آمادہ نہ ہوں تو پھر آفتیں اور آزمائیشیں انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنتی ہیں۔محسوس یہ ہوتا ہے کہ قدرت انسانوں کو ایک دوسرے سے جڑا رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ آسمانی آفات اور آزمائیشوں کی صورت میں بھی اگر کچھ لوگ رشتوں اور تعلق کی توڑ پھوڑ میں مصروف دکھائی دیں تو جان لیں کہ وہ انسان نہیں کچھ اور ہیں۔ہم انسانی رشتوں کی بے حیثیتی بلکہ بربادی کے حوالے سے مغربی معاشرے کو ہمیشہ سے ایک بدترین مثال کے طور پر دیکھتے چلے آئے ہیں۔اس معاشرے میں گھر کاوہ کانسپٹ بالکل بھی نہیں جو ہمارے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ ماں باپ اور بچے، اس معاشرے میں عموماً ایک اکائی کے طور پر نظر نہیں آتے۔ وہاں ہر بالغ شخص اپنا کھاتا ہے اپنا کماتا ہے۔کچھ صورتوں میں لوگ ایک خاندان کے نام پر ایک چھت کے نیچے رہائش پذ یر تو دکھائی دیتے ہیں لیکن ماں باپ کو بچوں کی اور بچوں کو ماں باپ کی نہ تو خبر ہوتی ہے نہ فکر۔دن نکلے کون کہاں جارہا ہے اور رات ڈھلنے پر کون کہاں سے آرہا ہے، کسی کو پرواہ نہیں۔وہاں مائیں اپنی ہر مصروفیت اور ہر بیماری کو نظر انداز کر کے صبح سویرے شوہر اور بچوں کے لیے ناشتے بنانے کو چولہے کے سامنے کھڑی نہیں ہوجاتیں، باپ اپنی دوا علاج کی بجائے اپنے بچوں کی آسانیوں کو فوقیت نہیں دیتا۔بھائی بھائی کے لیے جان قربان نہیں کرتا، بہنیں اپنے بھائیوں کی درازیء عمر کے لیے پلو اٹھا اٹھا کر دعائیں نہیں کرتیں مگر ہم ان سے بالکل ہی مختلف معاشرہ ہیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، بالکل تسبیح کے دانوں کی طرح۔
ابھی کل ہی کی بات ہے، ایک دوست سے لاک ڈاؤن، کرفیو اور سوشل ڈسٹنسنگ کے مثبت اور منفی نتائج پر بات ہو رہی تھی۔ میں انہیں قائل کرنے کی ہر ممکن سعی کررہا تھا کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھوک بڑھے گی، لوگ فاقوں سے مر جائیں گے لیکن ان دوست کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں بھوک سے کبھی کوئی نہیں مرے گا کیونکہ ہماری معاشرت میں زکوٰۃ، خیرات، صدقہ، نذر نیاز،لنگر اور اسی نوعیت کے بہت سے احسن اقدامات کا براہ راست فائدہ صرف اور صرف ضرورت مندوں کو ہی ہوتا ہے۔ہمارے ہاں لاک ڈاؤن جتنا مرضی طویل ہوجائے لوگ کبھی بھی بھوک سے نہیں مریں گے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ آج لاک ڈاؤن کو ایک ماہ سے زیادہ ہوچکا ہے۔ کاروبار بند ہیں، کارخانے،تعمیراتی منصوبے، ڈسٹری بیوشن کے دفاتر حتیٰ کہ سڑک کنارے بنے چائے خانے، سب کچھ رکا ہوا ہے لیکن آپ کو سارے ملک سے ایک بھی خبر ایسی نہیں ملی ہوگی جس میں کسی کے بھوک سے مرنے کی اطلاع دی گئی ہو۔لوگ لوگوں کا خیال رکھ رہے ہیں، آٹے چینی کے تھیلے، دالیں، گھی، پتی، دودھ اور مالی امداد، ہمارے خوشحال لوگ، یہ کچھ ضرورت مندوں تک پہنچا رہے ہیں۔ حکومت بھی ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ مالی امداد کا ایک میکینزم متعارف کرایا گیا ہے، راشن کی تقسیم کا سسٹم بھی بنایا گیا ہے۔ بہت سے خیراتی ادارے بھی نہایت متحرک ہیں۔حکومت نے کرونا وباء سے متاثرہ کاروباری لوگوں کے لیے کم مدتی اور نہایت آسان شرائط پر قرضوں کے اجراء کی سکیم بھی متعارف کرائی ہے لیکن سب کچھ ایک دم سے اچھا ہو جائے، یہ اتنا آسان نہیں۔آنے والے دنوں میں یقیناًمعاملات بہتری کی طرف جائیں گے لیکن وقت ضرور لگے گا۔یقین کیجیے کہ ہمارے ملک میں معاملات ابھی بھی بڑی حد تک کنٹرول میں ہیں۔کرونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اگرچہ بعض علاقوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اموات بھی کچھ بڑھ رہی ہیں لیکن اگر امریکا، برطانیہ، چین، اٹلی، سپین اور ایران جیسے انتہائی ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کی جائے تو، اللہ کے کرم سے، ہمارے ہاں کرونامتاثرین اور کرونا سے ہونے والی اموات کا تناسب بہت کم ملے گا۔ انشااللہ، یہ تعداد اور بھی کمی کی طرف جائے گی تاہم احتیاط بہر حال واجب ہے۔بیماری پر یقینا ہمارا کوئی اختیار نہیں، وباؤں اور آفات ناگہانی کا بھی ہمارے پاس کوئی توڑ اور تدارک نہیں لیکن ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے مصیبت زدہ لوگوں کے لیے ٹھنڈی چھاؤں اور بارش کی پھوار ضرور بن سکتے ہیں۔
ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں عمومی طور پر منصوبہ بندی کا فقدان ہو اور جہاں وسائل کی مسلسل کمی کا سامنا ہو، وہاں تمام امدادی کام صرف اور صرف حکومتی سطح پر نہیں کیے جاسکتے۔ایسی صورت حال میں،ہر طرح کی سیاست سے بالا تر ہوکر، عقائد اور نظریات کو پس پشت ڈال کر وسیع تر قومی مفاد میں لوگوں کو قدم سے قدم ملاکر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔کرونا کے حوالے سے ایک گزارش بڑے بڑے کارخانہ داروں اور مل مالکان سے بھی ہے کہ آپ کو قدرت نے دینے والا ہاتھ بنایا ہے۔اس کڑے وقت میں بہت سے بے بس اور مجبور لوگ ہمدردی طلب نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔انہیں اپنے ہونے کا احساس دلائیے، مال آنی جانی چیز ہے، مائکروسوفٹ کے مالک بل گیٹس ہوں یا پھر ایمیزون کے مالک جیف بیزوس، یہاں سے سب ہی خالی ہاتھ جائیں گے۔آپ کی ذرا سی توجہ، تھوڑی سی خیال داری،لوگوں کے دلوں میں آپ کو امر کردے گی۔یہی بات ان چٹکی بھر صاحبان تجارت سے بھی کہنا چاہوں گا جو اپنی کھلی آنکھوں سے موت کا یہ کھیل دیکھ رہے ہیں لیکن آنے والے ماہ رمضان کے حوالے سے ایسی تیاریوں میں مصروف ہیں جو خلق خدا کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔زندگی کو زندگی رہنے دیجیے، اس کا چہرہ مسخ نہ ہونے دیں تو اچھا ہے۔ایک آخری بات ان دوستوں سے جو آفتوں کو بھی عقیدے اور مسلک کی عینک سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ کو معلوم ہے کہ ابھی دو ایک روز پہلے بھارت کی ایک انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پرشاد VHPنے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سارے بھارت میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ ان کے ہیڈکوارٹر نظام الدین مرکز کو بھی سیل کردیا جائے۔ نیز مسلمانوں کی اس تنظیم کے تمام بنک اکاؤنٹ فریز کرنے کے ساتھ ساتھ سارے بھارت میں اس کے چھوٹے بڑے تمام مراکز کو بھی بند کردیا جائے کیونکہ ان کے بقول اس تنظیم سے وابستہ افراد کرونا وائرس پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ مودی سرکار جس شدومد کے ساتھ بھارت میں مسلمانوں کے لیے سانس لینے کو بھی ایک جرم کا درجہ دینے کو بے چین دکھائی دیتی ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وی ایچ پی کا یہ مطالبہ بہت جلد منظور کرلیا جائے گا۔اگر یہ سب کچھ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں ہوتا ہے تو یقیناً یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن ہمارے اپنے ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو مختلف دینی طبقات سے مربوط کرنا بہرحال کوئی مثبت روش نہیں۔تنگ نظری مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔
فیس بک کمینٹ