1994 میں اکادمی ادبیات پاکستان نے اہل قلم کانفرنس کا انعقاد کیا۔ملتان سے بے شمار ادیبوں شاعروں نے شرکت کی۔اسی کانفرنس میں ہمارے دوست قسور سعید مرزا نے رضی سے کہا۔ ’’ میں اکادمی ادبیات سے تمہاری کتاب کی اشاعت کی بات کرتا ہوں۔‘‘
رضی نے ملتان پہنچتے ہی اپنی غزلوں اور نظموں کو ترتیب دے کر اس کا مسودہ روزنامہ امروز کے خوش نویس ظہور تابش کے حوالے کیاجو ان دنوں روزنامہ نوائے ملتان میں بھی جز وقتی رضی کے ساتھ کام کرتے تھے ۔
ظہور تابش کی خوبی یہ تھی۔کہ وہ کتابت کرتے ہوئے گفتگو بہت شاندار کرتے تھے۔ کتابت کرتے ہوئے انہوں نے رضی کے اشعار کی ایسی تشریح کی۔جس کو سن کر ہمیں لگتا تھا۔کہ اس کتاب کوکبھی نہ کبھی کسی نصاب کا حصہ بھی بنایا جائے گا۔بہرحال کتابت کروانے کے بعد ہم نے اس کا مسودہ ڈاکٹر وزیرآغا۔ ڈاکٹر انور سدید۔ ڈاکٹر عرش صدیقی اور جناب مستنصر حسین تارڑکو بھجوایا۔تاکہ وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔
کتنا بھلا زمانہ تھا کہ ہمیں تمام اصحاب کی پندرہ دن کےاندر آراء مل گئیں۔ یوں ہم نے اس کتاب کی اشاعت پر مزید سنجیدگی سے کام شروع کر دیا۔سر ورق کے لیے اس وقت کے سب سے شاندار آرٹسٹ علی اعجاز نظامی کی خدمات لی گئی۔اس کے علاوہ کتاب کے اندر نظامی صاحب سے رنگین تصاویر اشعار کے ساتھ بنوائی گئی۔مارکیٹ سے اعلی کاغذ خریدا گیا۔اس دور میں روزنامہ سنگ میل کا روحانی آرٹ پریس اچھی کتابیں شائع کرنے کے معاملے میں شہرت رکھتا تھا۔کتابوں کی اشاعت کی ذمہ داری ایم ار روحانی کے مرحوم بیٹے فیاض روحانی کے ذمے تھی۔سر ورق اور اندر کے رنگین صفحات ماہنامہ جلترنگ کے ایڈیٹر اختر عزیز کے پرنٹنگ پریس پر استاد ظہور احمد نے شائع کئے۔جلد بندی کے لیے استاد ظہیر احمد کی خدمات حاصل کی گئیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب ملتان میں لیمینیشن نہ ہونے کے برابر تھی۔تو سرورق کے لیے لاہور کے قمرلیمینیشن نزد میو ہسپتال کا انتخاب کیا گیا۔قصہ مختصر جس طرح کسی خاندان میں پہلے بچے کا استقبال کیا جاتا ہے۔ہم نے بھی رضی کے پہلے مجموعے کی اشاعت پر دل کھول کر خرچ کیا۔
جب کتاب شائع ہو گئی۔تو ہم نے اپنی جیبوں کو ٹٹولا۔معلوم ہوا ابھی بھی بہت سے پیسے ہمارے پاس موجود ہیں۔تو پھر ہم نے اس کی ہوٹل الثنا میں تعارفی تقریب کا اہتمام کیا۔اس تقریب کی خوبی یہ تھی۔کہ اس میں ملتان کے تمام نامور ادیبوں شاعروں نے شرکت کی۔اس کے علاوہ خوش نویس ظہور تابش،سرورق بنانے والے علی اعجاز نظامی،فیاض روحانی اور بک بائنڈر ظہیر احمد کو تقریب میں مدعو کر کے ان کی خدمات کو نہ صرف سراہا گیا۔بلکہ اہل ملتان کی پہلی مرتبہ کتابوں کو شائع کرنے والے پس پردہ کرداروں سے ملاقات کروائی گئی۔
تقریب کے تمام شرکاء کوایک ایک کر کے سٹیج پر بلایا گیا۔ رضی ان کا نام لکھ کر اپنی کتاب پیش کرتا۔آخر میں پرتکلف چائے سے تواضع کی گئی۔کتاب کو پیک کرنے کےلیےایک لفافہ کم وبیش اسی انداز کا شائع کرایا گیا تھا جس میں گفٹ پیک کےاندازمیں کتاب پیک کرکےتقسیم کی گئی ۔
یہ ملتان میں ہونے والی کسی شعری مجموعے کی پہلی اور اب تک کی آخری تعارفی تقریب تھی جس میں نہ تو شاعری سنائی گئی اور نہ ہی کسی نے تقریر کی۔
البتہ کچھ عرصے بعد اسی ہوٹل میں کتاب کی رونمائی کی گئی۔جس میں دل کھول کر حاضرین نے اظہار خیال کیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے۔’’ دن بدلیں گے جاناں کے ‘‘ نئےجنم کے موقع پر میں کون سی قصہ کہانیاں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔تو اس بارے میں عرض یہ ہے۔کہ اس وقت میرے سامنے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن موجود ہے۔جس کو گرد و پیش نے شائع کیا۔اس کا ٹائٹل راشد سیال نے ڈیزائن کیا۔جب کہ اس کی جلد بندی ظہیر احمد مرحوم کے بیٹے ناصر ظہیر نے کی ہے۔اس کتاب کے نئے جنم میں فرق صرف اتنا ہے۔تب کتاب کی جلد بندی کی گئی تھی۔اب یہ کتاب پیپر بیک میں شائع کی گئی ہے۔
پہلی مرتبہ اس کتاب کو شائع کرانے والے قسور سعید مرزا اب دنیا میں نہیں۔جبکہ اس کی تزیئن و آرائش کرنے والے کسی اور دنیا کے باسی ہو گئے۔لیکن کتاب زندہ ہے۔جس پر اب 600 روپے کی قیمت شائع کی گئی ہے۔اگر آپ یہ شاعری پڑھنا چاہتے ہیں۔تو پھر گردوپیش اس پرآپ کو اچھی رعایت بھی دے سکتا ہے۔
فیس بک کمینٹ