کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی
آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا
(ناصر کاظمی)
یہ 2015 کی بات ہے جب استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے اردو زبان و ادب کی تدریس کا صد سالہ جشن چار روزہ عالمی اردو کانفرنس منعقد کر کے منایا تھا۔شعبہ اردو کے چئیرمین ڈاکٹر خلیل طوقار کی خصوصی دعوت پر میں بھی شریک ہوا اور انہوں نے میری عزت افزائی مجھے اردو کے فروغ اور تدریس سے متعلق نمایاں افراد کے ساتھ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے مزیّن کرکے کی۔میرے محسن اور استادِ محترم ڈاکٹر اے بی اشرف صاحب اپنی منصبی مصروفیات کی بِنا پر کانفرنس میں تو شریک نہ ہو سکے مگر انہوں نے اپنے رفیقِ کار ڈاکٹر جلال صوئیدان کو تاکید کر رکھی تھی کہ وہ مجھے ، ڈاکٹر محمد خان اشرف اور ڈاکٹر عظمت رباب کو بذریعہ بس انقرہ روانہ کریں۔ میری پاکستان واپسی کی بکنگ دو دن بعد استنبول سے تھی جس کی اطلاع میں اشرف صاحب کو پہلے ہی کر چکا تھا۔ڈاکٹر محمد خان اشرف اور ڈاکٹر عظمت رباب کو وہاں ٹھہرنا تھا۔ہم پہنچے تو اشرف صاحب بس ٹرمینل پر موجود تھے اور وہ میری واپسی کے خیال سے اگلے دن مولانا روم کے مزار جانے کے لیے روانگی طے کر چکے تھے اور ٹکٹیں بھی خرید چکے تھے۔
ہم ان کے گھر پہنچے ہی تھے کہ اشرف صاحب کے محبین کا جیسے تانتا بندھ گیا سبھی کا اصرار تھا کہ ہم ان کی ضیافت کی دعوت کو قبول کر لیں جس سے میں تو اگلے دن کی شام کو ہی استفادہ کر سکا تاہم ایک خاص بات جو میں نے محسوس کی یہ تھی کہ فیملیز کے ساتھ اشرف صاحب کا مشفقانہ برتاؤ خاندان کے بزرگ کا سا تھا اور یہ التفات دو طرفہ تھا۔اگلے دن ہمیں تیز رفتار ٹرین کے ذریعے قونیہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔روانگی سے قبل ترکی کے پرچم کے رنگ والی ٹائی میں نے خاص طور پہنی اور اشرف صاحب کو متوجہ کیا کہ جب وہ انقرہ یونیورسٹی میں ڈیپوٹیشن پر جانے کے بعد غالباً ایک یا ڈیڑھ سال بعد رخصت پر ملتان آئے تھے تب یہ ٹائی انہوں نے مجھے تحفتاً دی تھی تو ان کی خوشی دیدنی تھی کہ وہ ٹائی پچیس سال سے میرے پاس محفوظ تھی اور اب بھی ہے بلکہ اب تو وہ میرے لیے اور بھی قیمتی ہو گئی ہے۔ خیر ہم انقرہ گری (ترکی میں ریلوے سٹیشن کو گری کہا جاتا ہے) پہنچے۔جہاں صرف چھے دن پہلے اس وقت بم دھماکے ہوئے تھے جب اس کے سامنے پارک میں منعقد ہونے والے میوزک کنسرٹ میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس فتنہ گری کے نتیجے میں لقمہِ اجل بن گئے تھے۔ان دنوں شامی مہاجرین بڑی تعداد میں ترکی میں آ رہے تھے اور سڑکوں، بازاروں اور سیاحتی مقامات پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھے جا رہے تھے۔جرائم کی تعداد میں یک دم اضافے سے استنبول اور انقرہ میں اس حوالے سے بڑی تشویش پائی جا رہی تھی۔ایک بڑی طاقت کا اصرار تھا کہ ترکی تمام شامی مہاجرین کے لیے گنجائش پیدا کرے مگر ترکی شاید ہمارے انجام سے واقف تھا جس سے ہمیں افغان مہاجرین کو قبول کر کے دوچار ہونا پڑا اس لیے وہ محدود تعداد میں ہی ان کو لینا چاہتا تھا جو اپنے لیے مخصوص کی گئی جگہ سے نکل کر سارے ترکی میں اور خاص طور پر استنبول میں بڑی تعداد میں پہنچ چکے تھے۔
اس واقعے کو بھی ترکی پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے دیکھا جا رہا تھا تاہم جب ہم انقرہ گری سے روانہ ہوئے تو سب کچھ معمول پر آ چکا تھا۔اشرف صاحب نے سلجوق یونیورسٹی ، قونیہ میں احباب کو پیشگی اطلاع کی ہوئی تھی۔قونیہ گری پر شعبہ اردو کی چیر پرسن ڈاکٹر نوریہ بیلک اپنے رفیقِ حیات کے ساتھ موجود تھیں۔ان کے رفیقِ کار ڈاکٹر خاقان بھی آئے ہوئے تھے ۔ڈاکٹر نوریہ بیلک سے استنبول یونیورسٹی کی کانفرنس میں ملاقات ہو چکی تھی۔وہاں سے ہم سیدھے مولانا روم کے آستانے پر پہنچے ، فاتحہ خوانی کی ،علامہ اقبال کی علامتی قبر پر کچھ دیر ٹھہرے ، روحانی فیوض و برکات سمیٹیں۔وہاں سے ایک ریسٹورنٹ پہنچ کر لنچ کیا جہاں کی خاص بات ڈائننگ ٹیبل کے سائز کا پیزا اور دیگر لذیذ ترکی کھانے تھے۔وہاں سے اٹھے تو ایک طویل نشست سلجوق یونیورسٹی میں چئیرپرسن کے دفتر میں ہوئی جہاں ڈاکٹر نوریہ بیلک کے دیگر رفقاء بھی موجود تھے اور جہاں ہر کوئی محبت اور عقیدت سے اشرف صاحب کے ہاتھ چوم رہا تھا ۔اشرف صاحب بھی ان کے ساتھ اسی طرح گھل مل رہے تھے ۔ وہ ان سب کے ایسے ہمدرد دوست تھے جو ان کی ادبی ، تحقیقی اور تدریسی سرگرمیوں کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت موجود رہتا تھے۔ سرِ شام ہم واپس ہوئے۔
تمہید میں نے اس لیے بھی باندھی کہ اس سفر کا سب سے قیمتی حصہ وہ تھا جب میں نے اور اشرف صاحب نے آتے جاتے ہوئے ٹرین میں مجموعی طور پر چار گھنٹے برابر برابر بیٹھ کر دل کی وہ باتیں کیں جو نہ جانے ہم کب سے دلوں میں دبائے بیٹھے تھے ۔ یہ سب باتیں گذشتہ کئی دہائیوں کی یادوں ، واقعات اور تعلقِِ خاطر بلکہ غبارِ خاطر کے حوالے سے تھیں۔مجھے ایسے لگا جیسے ایک بند تھا جو اچانک ٹوٹ گیا ۔اشرف صاحب کو میں نے ہمیشہ خوش باش ، بے فکر اور ہر حال میں زندگی کا ساتھ نبھانے والا پایا مگر اس روز مجھے اندازہ ہوا کہ اندر کی گھٹن کو انخلا کا راستہ بہرصورت چاہیے ہوتا ہے۔ وہ سب باتیں تو اب ان کی امانت ہیں تاہم کچھ باتیں جو لکھی جا سکتی ہیں ان کا بھی یہ موقع نہیں۔ہماری پچھلی نشست پر بیٹھے اشرف صاحب کے دیرینہ ہم نام دوست محمد خان اشرف بھی حیران تھے کہ ہم کون سی ہزار داستان چھیڑے بیٹھے ہیں۔ اگلے دن شام کو میری استنبول سے واپسی کی فلائٹ تھی اس لیے الصبح رخصت کرنے کے لیے استنبول جانے والی پہلی بس پر سوار کرانے بس ٹرمینل پر آئے اور بالاصرار واپسی کا ٹکٹ خرید کر دیا یوں :
وہ اختصارِ سفر اس قدر عجیب ہوا
کہ منزلوں سے مسافر گزر گئے حیراں
کل جب سے اشرف صاحب کے دائم رخصت ہونے کی خبر ملی ہے گویا یادوں کا دبستان کھل گیا ہے انیس سو ستر میں جب میں بی اے کا طالب علم تھا ان سے تعلق خاطر قائم ہوا تھا جس میں ان کے شاگرد ہونے کا پرلطف تجربہ اور پھر ان کے رفیقِ کار ہونے کا شرف حاصل ہوا۔یہ بھی پتا چلا کہ الفت کے تقاضے نبھانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔اس پچپن سال کے عرصے میں کتنے ہی واقعات، کتنے ہی تجربات ،کتنے ہی مشاہدات ہم پر غمِ الفت کے احسانات و احساسات کی طرح وارد ہوئے اور مروٌت ، محبت اور وفا کے معنی سمجھا گئے۔ وہ میرے استاد ہی نہیں میرے دوست ،میرے ہم راز (میری ایک تصویر وہ کبھی کبھی اپنے والٹ سے نکال کر دکھایا کرتے تھے) اور میرے رول ماڈل تھے۔ان کی خوش پوشاکی مجھے ہمیشہ مہمیز دیتی کہ استاد کو ان کی طرح خوش لباس ہی نہیں خوش مزاج اور جمال دوست ہی نہیں اسلوب پرست (ان کے استاد ڈاکٹر سید عبداللہ کے ولی دکنی کی شاعری کے پر لکھے گئے عنوان "جمال دوست اسلوب پرست ولی” کے مانند) ہونا چاہیے۔ان کی حوصلہ افزائی میری ہمت بڑھاتی۔میری بیوی کو وہ گاہے گاہے فون کرتے ، میری بیٹیوں کا نام لے لے کر خیریت معلوم کرتے۔مجھے آج ہی ان کے بڑے صاحبزادے نعیم اشرف نے بتایا کہ وہ ہم سب کی دلجوئی کے لیے جینا چاہتے تھے پہلے آشوبِ چشم نے زور کیا مگر آخری وار نمونیا نے کیا یہ سب اچانک ہوا اور پھر یوں ہوا کہ دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو کہیں گم ہو گیا اور اب یہ عالم ہے کہ
"چاندنی اور دھویں کے سوا دور تک کچھ نہیں ”
فیس بک کمینٹ