شیکسپیئر نے لکھا ہے کہ تنقید دوسروں کی ذات میں سوراخ کبوتر pigeon hole بنانے کا عمل ہے جبکہ فرائیڈین مکتبہ فکر اسے انتہائی ذاتی یا ازدواجی تنہائی میں جھانکنے کے سوراخ peeping hole بنانا قرار دیتا ہے۔ برصغیر میں تنقید لکھی تو بہت گئی ہے لیکن یہ بالکل غیر سائنسی ہے، سلیم الزماں صدیقی سے لے کر ممتاز شانتی تک کسی نے بھی سائنسی تنقید نہیں لکھی ، یہاں کی تنقید یا تو توصیف ہوتی ہے یا تضحیک ، ہمارے کسی بھی نقاد نے نہ تو مارکسی جدلیات پڑھی ہیں نہ فرائیڈین جنسیات ، الیگزینڈرا گوئٹے نامو اور ولیم ہیری کوپر فیلڈ کا تو کسی نے نام بھی نہیں سنا ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں بھارت پاکستان بنگلہ دیش بھوٹان نیپال ، سری لنکا اور مالدیپ کو بھی شامل کر لیں ،جو شخص شاعر ، افسانہ نگار ناول نگار انشائیہ نگار کچھ بھی نہیں بن سکتا وہ نقاد بن جاتا ہے ، ظاہر ہے چاپلوسی یا پھر دشنام طرازی کے لئے کسی علم وفضل اور مطالعہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہمارا موضوع پاکستان کے بزعم خود ایک ممتاز ناول نگار افسانہ نگار شاعر اور سیاسی دانشور استاد اللہ بخش زخمی کا ناول کھودا پہاڑ ہے۔ مصنف نے یہ نام بہت چالاکی سے رکھا ہے تاکہ مزاح کو پسند کرنے والے اسے کھودا پہاڑ نکلا چوہا سمجھ کر خریدیں، جبکہ مہم جوئی کا شوق رکھنے والے، تاریخ سے شغف رکھنے ، رومانی طبیعت والے اور انقلابی مزاج رکھنے والے اسے فرہاد کے شیریں کے لئے پہاڑ کھودنے اور جوئے شیر نکالنے سے کوئی مماثلت سمجھ کر خریدیں۔۔۔ لیکن پڑھنے کے بعد ہر قاری ایک ہی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ میں نے پہاڑ کھود ڈالا اور نکلا کیا ایک مرا ہوا بدبودار چوہا۔۔۔
ناول نگاری بھی ایک سائنس ہے اور برصغیر کے دیومالائی ماحول اور توہم پرست معاشروں میں سائنسی فکر پنپ ہی کیسے سکتی ہے، کوئی بھی نام نہاد ناول اٹھا لیں اس میں سے دیومالا اور داستان جھانکتی بلکہ معاف کیجئے گا برہنہ رقص کرتی دکھائی دیں گی ، اور زیر تبصرہ ناول بھی کوئی اس سے مختلف نہیں۔
الفانسو بالڈہیڈ کہتا ہے جس ناول میں ناولٹی نہ ہو اسے کیمپ فائر میں لکڑیاں سلگانے کے لیے استعمال کرو، اور یہاں آدھا درجن گھسی پٹی تھیمیں ہیں انہیں پہ ناول لکھے جا رہے ہیں ، ناول لکھنا اگر بازیچہ اطفال ہوتا تو میں تنقید کے میدان میں گلی ڈنڈا کیوں کھیل رہا ہوتا۔ناول میں پلاٹ ہوتا ہے ،یہاں کسی احمق کو پلاٹ کا علم ہی نہیں، انہیں بس سیاسی اور صحافتی خرید کے لئے دیے جانے والے پلاٹوں یا پھر ناجائز قبضے والے پلاٹوں یا چار چار جگہ بیچے جانے والے پلاٹوں کا ہی علم ہے ۔۔پھر کردار آتے ہیں جو ظاہر ہے مضبوط ہونے چاہئیں، جیسیکا گولڈ سمتھ کی ہیروئن مس نمفو کی طرح یا وڈبائین کنگ کے ہیرو مسٹر پمپ کی مانند، لیکن مسٹر زخمی کے کردار برصغیر کے ناولوں کے اکثر کرداروں کی طرح لعنتی کردار ہیں، بھئی تم لوگ اگر انسانی کرداروں کو خوش اسلوبی سے نبھا نہیں سکتے تو جانور رکھ لو آخر ریچھ بھیڑیے گیدڑ لگڑبگڑ اور چوہے بھی تو پہاڑ کھودتے ہی ہیں۔ اور تم خود بھی تو نقال بندر یا طوطے ہی ہو اوریجنلٹی تو تمہاری گلی کیا محلے میں سے بھی کبھی گزری ہو گی تو شٹل کاک برقع پہن کے تیزی سے گزر گئی ہو گی۔ناول میں پلاٹ اور کرداروں کے علاوہ ایک عدد کہانی بھی ہوتی ہے جس کا کلائمکس ہوتا ہے اور پھر ایک عدد دی اینڈ ہوتا ہے، زیر نظر ناول میں کہانی چوں چوں کا مربہ بھی نہیں، وہ بھی ہمارے گیم چینجر پہ کام کرنے والے چینی بھائی خرید سکتے ہیں ، یہ تو ایک ملغوبہ ہے خرافات بکواسیات سیاسیات اور جنسیات کا، جنسیات کا لفظ دیکھ کر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں مصنف نے انہیں بھی ٹوپی والے برقع میں ملفوف کیا ہے،آپ جنسیات پڑھنے کے شوقین ہیں تو وہی وہانوی کے ناول ڈھونڈیں، یہ ناول نگار تو ڈھنگ سے فحش نگاری بھی نہیں کر سکتا۔
ایک تو برصغیر کا معاشرہ بدقسمتی سے حد سے زیادہ سیاسیا گیا ہے ، یہاں ادب اور شعر میں بھی سیاست اس طرح گھسیڑی جاتی ہے جس طرح سیاست میں فوجیں گھس جاتی ہیں۔۔ہنری آٹو رینالڈو کہتا ہے ناول کا انجام ایسا ہونا چاہیے کہ ہر قاری اپنی فہم کے مطابق نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے لیکن مسٹر زخمی نے یہاں کے دیگر ناول نگاروں کی طرح ڈانگ اٹھا کے باشعور قاری کے سر میں ماری ہے ، ہیرو اور ہیروئن کے نکاح پہ ناول کا خاتمہ کیا ہے۔یہی چوہا نکالنا تھا چار سو صفحات تک کوہ مردار کھودنے کے بعد۔۔نکاح ضروری ہے کیا ! او بھائی یہاں تو ہیرو اور ہیروئن بھی ضروری نہیں ، دنیا مریخ پہ پہنچ گئی ہے تم ابھی تک شہزادوں اور شہزادیوں کے نکاح کرائے جا رہے ہو۔۔ناول نگار کو چائیے کہ اپنے زخموں کا علاج کرانے کے بعد کوئی اور شغل اختیار کرے، رہائشی پلاٹوں کی دلالی ہی کرے ،خاصا منافع بخش کام ہے۔اور اگر آپ یہ ناول خریدنے کا سوچ رہے تھے تو 650 میں میکڈونلڈ کا اچھا برگر مل جائے گا اس کا ذائقہ بھی اچھا ہو گا۔
فیس بک کمینٹ