13جنوری2018ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سر براہی میں پیکٹ والے دودھ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس نے پیکٹوں والے دودھ کو فراڈ قرار دیا اور کہا کہ شہریوں سے فراڈ نہیں ہونے دینگے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو غیر معیاری دودھ پلایا جارہا ہے ۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آج ہی مارکیٹوں سے پیکٹ والے دودھ کے تمام برانڈز کی پروڈکٹ اٹھائیں اور ٹیسٹ کیلئے بھیجیں۔ عدالت نے تمام نمونے پی سی ایس آئی آر بھیجنے کا حکم دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دودھ نہیں ہے یہ فراڈ ہے یہ دودھ کا نعم البدل ہو بھی نہیں سکتا تمام کمپنیوں کو ہدایت کی گئی کہ ہر ڈبے پر لکھیں کہ یہ دودھ نہیں اس کے استعمال سے بریسٹ کینسر جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں بچیوں کا خیال بھی نہیں رکھا جارہا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ دودھ کے ڈبوں پر نمایاں طور پر لکھا جائے کہ یہ دودھ نہیں’’Tea Whitener‘‘ہے۔
سپریم کورٹ کے ان احکامات کے اگلے روز ہی کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چند قومی اخبارات میں اپنی مصنوعات کے معیاری ہونے بارے میں مختلف لیبارٹریز سے حاصل کردہ سرٹیفکیٹس شائع کرائے تاکہ عوام اور خصوصاً اپنے صارفین کو مطمئن کیا جاسکے ۔ ڈبوں اور پیکٹوں میں محفوظ کیا گیا دودھ کتنامعیاری اور غذائی اعتبار سے صحت کیلئے مفید ہوتا ہے اس کا اندازہ تو ہر ذی شعور کو ہے کیونکہ دیہات میں گھروں اور ڈیری فارموں سے لے کر فیکٹری اور پیکٹوں میں محفوظ ہو کر دکانوں کی سجاوٹ بننے تک یہ دودھ نہیں صرف سفید رنگ ہی رہ جاتا ہے اور اس میں غذائیت نام کی کوئی چیز نہیں بچتی۔
جب سے پیکٹوں اور ڈبوں میں فروخت ہونے والے دودھ کے غیر معیاری ہونے کی خبریں زبان زد عام ہو ئیں تو اس کی فروخت اور استعمال میں نمایاں حد تک کمی آئی ہے میرے اپنے مشاہدہ میں ہے یہ دودھ گھروں کی نسبت دفاتر اور اونچے درجے کے ہوٹلوں میں زیادہ استعمال ہوتا تھا مگر وہاں بھی اس کا استعمال اب کافی حد تک کم ہوگیا ہے ۔ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور شہریوں میں اپنا اعتماد بر قرار رکھنے کیلئے ان دودھ ساز ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کئی فرضی اور جعلی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے جن میں سے ایک میڈیا کو استعمال کرکے عوام کو دھوکہ دیناہے اس سلسلے میں ان کمپنیوں نے چند من پسند صحافیوں پر نوازشات کی بارش شروع کر دی ہے ہمارے جنوبی پنجاب میں ایسی ایک فیکٹری خانیوال کے قریب قائم ہے جو ہر سال ماہ صیام میں ملتان کے اور مقامی صحافیوں کو الگ الگ افطار پارٹی دے کر سال بھر کیلئےان کا منہ بند کر دیتی ہے تاکہ کوئی ان کی مصنوعات کے بارے قلم آزمائی نہ کرسکے ۔کمپنی نے بھاری تنخواہ اور مراعات پر میڈیا منیجرز تو رکھے ہوئے ہیں مگر ان میڈیا منیجرز کا کسی ورکر صحافی سے کوئی رابطہ ہے اور نہ یہ کسی ورکر صحافی کو خاطر میں لاتے ہیں اور صرف گنتی کے دو چار صحافیوں سے رابطہ رکھ کر ہی انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتے ہیں افطار پارٹی کی طرح گزشتہ دنوں بھی ملتان کے چند صحافیوں کو فیکٹری کا دورہ کراکر اپنی مصنوعات کے بارے میں بتایا گیا تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مارکیٹ میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دیا جاسکے ۔ افطار پارٹی کی طرح اس دورے میں بھی کمپنی کی میڈیا ٹیم نے عام اور عامل صحافیوں کو نظر انداز کیا اور چند من پسند صحافیوں پر نوازشات کر کے اپنی ذمہ داریاں پوری کردیں ۔
ان فیکٹریوں میں مزدوروں اور خصوصاً یومیہ اجرت پر کام کرنے والے دیہاڑی دار مزدوروں سے جو ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں فیکٹری میں مزدوروں کیساتھ ہونیوالے ناروا سلوک اور اجرت کی عدم ادائیگیوں بارے شکایات آئے روز سننے کو ملتی رہتی ہیں مگر مجبور بے کس مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کی آواز کو کبھی نام نہاد مزدور یونین رہنماؤں اور کبھی لے پالک صحافیوں کی مدد سے دبا دیا جاتا ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جہاں ان کمپنیوں میں تیار ہونے والے دودھ کے فراڈ ہونے کا نوٹس لیا ہے وہاں ہماری استدعا ہے کہ ان فیکٹریوں کے اندر مزدوروں سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کا بھی از خود نوٹس لے کر ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
فیس بک کمینٹ