”اونٹنی کا دودھ پینے اور گوہ کھانے والے عربوں کی اتنی ہمت ہوگئی کہ وہ تخت عجم کا خواب دیکھنے لگے ہیں تف ہے تم پر اے گھومنے والے آسمان“
”عرب صحراﺅں میں ٹڈیاں کھاتے ہیں جبکہ اصفہاں کے کتے بھی برف ملا پانی پیتے ہیں“
فردوسی کے اشعار کا یہ ترجمہ ہمیں اپنے دوست ڈاکٹر عباس برمانی کے سفرنامے میں پڑھنے کوملا یہ ترجمہ ایران عرب تنازعات کاپس منظربھی واضح کرتا اور بتاتا ہے کہ ہم جن جھگڑوں کو موجودہ عالمی سیاسی تناظر میں دیکھتے ہیں ان کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔اور ہم جواب تاریخ کے ساتھ ساتھ اب اپنے جغرافیے سے بھی لاتعلق ہوتے جارہے ہیں ایسے تاریخی حقائق کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر عباس برمانی کی کتاب ”ایران 2018 ۔۔کوہ البرز سے بحر قزوین تک“ کل ہی مجھے موصول ہوئی اور میں نے ایک ہی رات میں اس کا جستہ جستہ مطالعہ بھی کرلیاکہ یہ کتاب بہرحال تفصیل کے ساتھ اور فرصت کے ساتھ پڑھنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔لیکن کتاب کا جستہ جستہ مطالعہ بھی اتنا تفصیلی ہے کہ میں اس پر اب اپنے تاثرات قلم بند کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر عباس برمانی جنوبی پنجاب میں سفرنامے کی پہچان ہیں۔ اب تک ان کے چھے سفرنامے منظرعام پر آچکے ہیں لیکن شہرت انہیں پہلے سفرنامے ”کیلاش کتھا“ سے ہی حاصل ہوگئی تھی۔کافرستان کا یہ سفرنامہ اس لیے بہت خوبصورت ہے کہ اسے عباس برمانی نے تحریر کیا ہے اور یہی رائے ایران کے اس سفرنامے کے بارے میں بھی ہے کہ برمانی جب کوئی سفر نامہ لکھتے ہیں تو اس کے معیار اور خوبصورتی کا ذکر پھر اضافی ہوتا ہو جاتا ہے کہ برمانی نام ہی سفر نامے کے اعتبار کی دلیل ہے ۔ سفرنامہ نگار کی اگر تاریخ ،ثقافت ،مذہب اور شعر وادب پر گہری نگاہ ہو اور وہ عالمی سیاست پربھی نظررکھتا ہو تو پھر اس کے سفرنامے میں وہ گہرائی اور گیرائی پیدا ہوجاتی ہے جو برمانی صاحب کے سفر ناموں میں موجود ہے ۔
ڈاکٹر عباس برمانی ایک روشن خیال لکھاری ہیں ۔انہوں نے ایران کاسفر 2018 میں کیا ۔ اور ایک ایسا ایران دیکھا جو شاہ اور خمینی کے مظالم بعد ایک نئے طرح کے مظالم کاسامنا کررہاہے بالکل اسی طرح جیسے ہم جنرل ایوب ، یحیی ضیاء اور مشرف کے بعد ایک نئی طرح کی جمہوری آمریت کے تجربے سے گزر رہے ہیں ۔ایران میں اظہاررائے پر جو پابندیاں ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اب تو اسی تسلسل میں وہاں ابراہیم ریئسی بھی صدر کے عہدے پر فائز ہوچکے ہیں جو پیشہ ورقاتل کے حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ 1988ءمیں ابراہیم ریئسی نے ہزاروں سیاسی مخالفین کو قتل کردیاتھا اور ”قصاب“ کالقب بھی حاصل کیا تھا ۔ایک ایسے ایران میں سفر کرنا اور اس کا احوال بیان کرنا بہت حوصلے کی بات ہے۔ کتاب کاانتساب قرة العین طاہرہ، پروین اعتمادی اور فروغ فرخ زاد کے نام ہے ۔یہ وہ قلم کار ہیں جو ایران میں آزادی اظہار کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس صفحے پر یہ نام انتساب کی صورت درج ہیں اسی کے نیچے ایک فٹ نوٹ میں لکھاگیا ہے کہ ”ایرانی شہریوں کے نام ان کی سکیورٹی کے پیش نظر تبدیل کردیئے گئے ہیں“۔ڈاکٹر عباس برمانی چونکہ فارسی زبان پربھی مکمل گرفت رکھتے ہیں اس لیے اس سفرنامے میں ایک اور طرح کی چاشنی پیدا ہوجاتی ہے۔وہ فردوسی ،خیام اور حافظ کے اشعار اور(ہم جیسوں کے لیے )ان کے تراجم کی مدد سے سفرنامے میں جابجا خوبصورتیاں پیدا کرتے ہیں۔امام خمینی کے شہرقم کے سفر کے دوران انہیں یادآتا ہے کہ 1898ءمیں حسین ابن منصور حلاج کو قم سے ہی گرفتار کرکے بغداد لے جایاگیا تھا اور اسی سال زرتشتیوں نے آخری آتش کدہ مسمار کرکے اس کی جگہ مسجد تعمیر کی تھی۔اسی کتاب کے ذریعے معلوم ہوا کہ قم میں حضرت عمر فاروق ؓ کے قاتل ابولولوفیروز کا مقبرہ بھی ہے۔ڈاکٹر عباس نے قم میں ایک عالم سے پوچھا توانہوں نے کہاکہ قم میں توایسی کوئی قبر نہیں البتہ کاشان میں کسی فیروز کامزار ہے جسے بعض لوگ ابولولوفیروز سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس کی لاش مدینہ منورہ سے لا کر یہاں دفن کی گئی تھی۔اس مقبرے کو صدراحمدی نژاد کے دور میں سربمہر کردیاگیاکیونکہ بعض لوگ وہاں جاکر فاتحہ خوانی کرتے تھے اور تصویریں عرب دنیا میں بھیجی جاتی تھیں اس سے اتحاد بین المسلمین پر” برے اثرات“ مرتب ہورہے تھے۔کاشان کاشی گری کا مرکز ہے اوروہاں کے سفر کے دوران برمانی کوملتان اس لیے یادآیا کہ کاشان کے بعد کاشی کے فن کا دوسرا سب سے بڑا مرکز ملتان ہے۔لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ کاشان آٹو موبائل انڈسٹری کا بھی ایک بڑا مرکز ہے جہاں کاریں اورموٹرسائیکل بنانے کے بہت سے کارخانے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملتان کے ساتھ کاشان کی یہ مماثلت بہرحال نہیں ہے۔
ڈاکٹر عباس برمانی نے اس سفرنامے میں ایران کی تاریخ اورتہذیب کے ساتھ ساتھ اوربھی بہت سی دلچسپ معلومات دی ہیں۔ایک ایسا خطہ جو عظیم تہذیب کی جنم بھومی اور بے مثال تمدن کاگہوارہ ہے۔ جو سرزمین فارس کہلاتی تھی ،جہاں حضرت عیسی کی پیدائش سے 535سال قبل سائرس عظیم نے دنیا کو حقوق بشر کا پہلا منشور دیاتھا اورجسے 1921ء میں اقوام متحدہ نے دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کیاتھا ۔اس سفر نامے کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کا منشور دینے والے خطے میں اب انسانی حقوق کی صورتحال کتنی مخدوش ہوچکی ہے۔بلاشبہ یہ کتاب ایران کی تاریخ ،تہذیب ،عروج وزوال اور تبدیل ہوتے ہوئے ایران کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی ۔صفحہ نمبر17سے صرف ایک اقتباس کے ساتھ اپنی تحریر ختم کرتا ہوں
”ہاں البتہ ایک بات توسچ ہے لوگ اب اکتا چکے ہیں ، ہم گزشتہ چالیس سال سے مرگ برامریکہ مرگ بر امریکہ کے نعرے لگائے جارہے ہیں ۔کیا انقلاب کا مفہوم یہی تھا ؟ جب ہمارے رہبرکہتے ہیں کہ اسلام کی روح سے ایٹم بم بنانا حرام ہے تو پھرہم ٹرمپ کی پیشکش کیوں ٹھکرارہے ہیں ؟رسول اللہ ﷺ نے بھی تو صلح حدیبیہ کی تھی اور امام حسن ؓ نے بھی تو امیرمعاویہ کے ساتھ صلح کی تھی۔ اورہاں امریکی پابندیاں ہمارا کچھ نا بگاڑتیں اگر حکمرانوں سے وابستہ لوگ ہمارے ملک کاسرمایہ دبئی، استنبول، کینیڈا اور یورپ نکال کرنہ لے جاتے“۔
رضی الدین رضی
یکم فروری دو ہزار بائیس
فیس بک کمینٹ