امریکہ کی بدنامِ زمانہ ایجنسیوں نے قیدیوں کو جسمانی تشدد سے زیادہ ذہنی تشدد دینے کے لیے ، Smell & Sight torture نامی ایک بدترین تشدد کا طریقہ ایجاد کیا، یہ طریقہ مصر کے فرعون بادشاہوں کے تہہ خانوں سے ایجاد کیا گیا،جہاں حبشی غلاموں کو انسانی فضلے کے ڈھیر میں دفن کردیا جاتا تھا۔اس طریقہ کار میں مجرم کو کالی دیواروں والی ایک کوٹھری میں قید کردیا جاتا ہے،جہاں ایک غلیظ واش روم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔تمام تشدد گندگی پر محیط ہوتا ہے اور یوں مجرم کچھ عرصے میں اپنا ذہنی توازن کھو دیتا ہے ۔ اپنے چند محسن اساتذہ کی مدد سے جب کچھ لکھنے کا موقع ملنے لگا،تو مجھے میرے ایک لکھاری دوست سے خاص تاکید کی کہ تم نے گٹر وں کا لکھاری نہیں بننا۔ چھوٹے چھوٹے مسائل ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، شہر میں گندے پانی کے جوہڑوں پر قلم نہیں اٹھانا۔ نیشنل انٹرنیشنل موضوعات پر تحریر لکھنا،ایسے گٹروں کے مسائل پر کالم تو ہر کوئی لکھ لیتا ہے، اور یہ وہ مسائل ہیں جن کا سب کو پتا ہے۔ دوست کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش جاری رکھی ، مگر شہر کی گندگی دیکھ کر Smell & Sight torture کا شکار راقم الحروف قلم اٹھانے پر مجبور ہے۔
یہ سردیوں کی دھند زدہ تاریک راتیں تھیں۔ایک سات سال کی بچی بار بار مجھے بلاتی ،میں جاکر اس کے والد کو انجکشن لگاتا اور وہ سکون میں آجاتی۔ سرکاری ہسپتال میں میری ہاﺅس جاب کہ کچھ آخری ماہ تھے اور یہ میری ایک سال کی ہاﺅس جاب میں Tetanus کاکوئی چالیسواں کیس تھا،جو میں دیکھ رہا تھا۔کیس آسان نہیں تھا،اس کے والد کی موٹرسائیکل کسی پھل فروش کی ریڑھی سے ٹکرائی تھی،اس کا والد سڑک پر گر گیا،چند خراشیں آئیں تھیں اور کچھ دن بعد ہی اس کا والدTetanus کا شکار ہوکر سرکاری ہسپتال کے ایک کمرے میں پڑا تھا۔یہ بیماری لگنے کی وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ جس سڑک پر گرا تھا،وہ سڑک گدھا ریڑھی کا فری ٹریک تھا، وہاں گدھے یا گھوڑے کے فضلے میں موجود جراثیم اس کے جسم میں داخل ہوگیا تھا،اور آج ایک ہستا بستا گھر اجڑ رہا تھا۔ میں وہ صبح بھولا نہیں تھا، جب اس بچی کے والد کو ہر پندرہ منٹ بعد پڑنے والے جھٹکے ختم ہوگئے ،تو وہ مجھ سے بار بار صرف یہ پوچھنے آتی تھی کہ انکل ابو کرنٹ بند ہوگیا؟ اس کا والد چار بچوں کو یتیم کرکے موت کی وادی میں جاچکا تھا،اور اس کی موت کی مکمل ذمہ دار معاشرے کی پھیلائی گندگی تھی۔دو سال بعد جب مجھے دارا لخلافہ کے ایک بڑے ہسپتال میں کام کرنے کا موقع ملا تو مجھے احساس ہوا کہ پورے سال میں مجھے ایک بھی کیس ،Tetanus کے مرض کے ساتھ نہیں ملا۔ کہیں اس کی وجہ شہر کی صفائی کے سخت قانون تھے؟یہ ایک چھوٹا سا مشاہدہ تھا جس نے مجبور کردیا کہ تحقیق کی جائے کہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل، جن کو ہم روز مرہ گٹر کے مسائل کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں ،وہ حقیقی طور پر ہماری زندگی کو کس قدر متاثر کر رہے ہیں۔یہ تحقیق حیران کن طور پر شرمندگی کا باعث تھی کیونکہ اس نظر سے جب اپنے شہر ملتان کو تو دیکھا ،تو یہاں کے باسیوں پر غصہ آنے لگا۔ یہ چھوٹے چھوٹے مسائل پیدا کرنے میں ایک جہالت سے آلود معاشرہ کس قدر پیش پیش ہے اور وہ شہر کے محسن حکمرانوں کی دی ہوئی ترقی کا کیا حشر کرتا ہے،اس میں جنوبی پنجاب کے رہنے والوں کی مثال دینا راقم الحروف کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔ ملتان شہر نے پچھلی دہائی میں بے انتہا ترقی کی۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد،یہاں بہترین سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ملتان میں پاکستان کا سب سے خوبصورت انٹر نیشنل ائیر پورٹ تعمیر کیا گیا، قومی نشریاتی ادارے کی بہترین عمارت تعمیر کی گئی، جگہ جگہ فلائی اوور بنائے گئے۔ جب شہر میں سڑکیں بہترین شکل اختیار کرگئیں تو ایک ترقی کرتے شہر میں برانڈز نے بھی اپنے مارکیٹ بنا لی اور یوں گلگشت کے علاقے کی طرف جاتی ایک سڑک، جس پر سے کبھی گزرتے خوف آتا تھا،اس قدر ترقی کرگئی کہ لاہور کے ایم ایم عالم روڈ کی نقل پر یہ روڈ ملتان کا ایم ایم عالم کہلانے لگا۔اس روڈ پر جدید پلازوں کی تعمیر اور ہر طرف کھانے پینے کے دنیا بھر کے بہترین برانڈریسٹورانٹس کی بھرمار نے شہر کا نقشہ ہی تبدیل کردیا۔ اسی ترقی کو دیکھتے ہوئے، اور محرومیوں کے طعنوں کو چھپانے کے لیے یہاں بھی شہر کے اندر جدید بس کے پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ شہر کی سڑکوں کو کشادہ کیا گیا۔شہر میں دنیا کے بہترین فائیو سٹار رہائشی ہوٹل بھی بننے لگے، عالمی طرز کی رہائشی کالونیاں بھی تعمیر کی جانے لگیں اور لاہور ،اسلام آباد کی طرز پر یہاں عالمی سطح کے تعمیراتی پروجیکٹس کامیابی سے چلنے لگے۔ ایک دو پرائیوٹ میڈیکل کالجز کے ساتھ ساتھ ، تعلیمی مواقع بھی بہتر ہونے لگے،یوں پسماندہ علاقے کے لوگوں نے لاہور کی بجائے ملتان کو اپنی کامیابی کی منزل بنا لیا اور یہ شہر ترقی کرنے لگے۔ دنیا کا یہ قدیم شہر تو ترقی کرگیا، مگر وہ جہالت ، کہ جس کا الزام براہِ راست حکمرانوں پر ہی جاتا ہے،ترقی سے غافل رہی۔ کر وڑوں روپے سے تعمیر کیے گئے یوسف رضا گیلانی فلائی اوور پر فروٹ کے ٹھیلے سجا دیے گئے،جگہ جگہ اس پر گدھا گاڑیوں کی بھرمار نظر آنے لگی اور ان سب کی وجہ سے آئے روز حادثات ہونے لگے۔یہی حال کلمہ چوک سے لے کر چوک کمہاراں والا تک تعمیر کیے گئے تمام فلائی اوورز کا کیا گیا۔ دنیا کا وہ بہترین ائیر پورٹ کہ جس کا موازنہ اگر اسلام آباد کے موجودہ ائیر پورٹ سے کیا جائے تو سر فخر سے بلند ہونے لگتا ہے،اس کی طرف آنے والا کینٹ روڈ شہریوں کی گندگی پھیلانے والی عادات کی وجہ سے بند کردیا گیا،اور اس کے لیے چونگی نمبر ایک اور جمیل آباد روڈ کی طرف ایک نئی بہترین سڑک تیار کی گئی۔یہ سڑک طرزِ تعمیر میں دبئی کی سائڈ روڈز سے کسی طور کم نہ تھی، مگر قارئین کو پڑھ کر حیرانی ہوگی کہ یہ سڑک اپنی تعمیر کے دوران ہی ریڑھی کلچر نے اس قدر گندگی سے بھر دی کہ افسوس ہونے لگا کہ سڑکوں پر پڑے یہ بھورے نشان کیا اس قدر ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارا مذاق اس بے دردی سے اڑاتے رہیں گے۔ ملتان کے ڈی سی او صاحب کی کاوشوں سے لاہور ٹی ہاﺅس کی طرز پر ملتان ٹی ہاﺅس کا افتتاح کردیا گیا،یہ ٹی ہاﺅس ملتان کی دانشور برادری کے لیے تحفہ تھا، مگر اس ٹی ہاﺅس کے گرد لگے گندگی کے ڈھیر اور ٹھیلے یہ بتانے کو کافی تھے کہ یہ تحفہ کس شہر کو دیا گیا ہے۔ سچ پوچھیں تو ایسا لگتا ہے کہ گرد ، گرما،گدا اور گورستان کے اس شہر میں اب گٹر کے ساتھ ساتھ گدھا ، گھوڑا اور گندگی بھی شامل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اسلام آباد ،دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے ،اور اس شہر کی اصل خوبصورتی پہاڑوں سے زیادہ ، اس شہر کے اصولی قانون میں ہے۔ یہاں ہر قسم کے رکشے ، چائینہ رکشے اور جانور گاڑیاں اور ٹھیلوں کا داخلہ ممنوع ہے، سڑکیں آپکو ابو ظہبی ہائی وے جیسی چمکتی دکھائی دیتی ہیں ،ٹریفک رواں دواں رہتی ہے اور یقینا کوئی غریب کسی ایسی گمنام بیماری کا شکار بھی نظر نہیں آتا ،جو جنوبی پنجاب کے اس شہر کی گندگی کا تحفہ ہے۔ وسیب کی محرومی کا رونا رونے والوں کو سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا اور اس ترقی کی قدر کرنا ہوگی۔ اس میں سب سے زیادہ کردار سول سوسائیٹی کے ساتھ ،مقامی سطح پر حکومتی ایڈمنسٹریٹر اداروں کا ہے۔ اس ضمن میں کراچی کے شہری عالمگیر خان کو ہمیں بطور عام پڑھے لکھے شہری کے رول ماڈل کے طور پر لینا ہوگا۔ عالمگیر نے #FIT IT نامی ایک تحریک کا آغاز کا شروع کیا، طریقہ کار سے حکومتی ارکان کا لاکھ اختلاف سہی ،مگر مقصد بہت ہی بہترین تھا۔ عالمگیر خان نے شہر میں جہاں گٹر کے ڈھکن موجود نہیں تھے ،وہاں وزرا کی تصاویر کے ذریعے اس نظر انداز مسئلے کی جانب ،سب کی توجہ مبذول کرائی، سول سوسائیٹی کی بہت بڑی تعداد عالمگیر کے ساتھ مل گئی ، پھر ڈونیشن کے فنڈ اکٹھے کرکے عالمگیر نے خود لوگوں کے ساتھ گٹر کے ڈھکن بند کرکے اس تحریک کی کامیابی کا اعلان کردیا،اسی طرح لوگوں کی بہت کثیر سپورٹ کی وجہ سے عالمگیر نے ٹریکٹر خریدا اور شہر بھر کا کچرا شہر سے دور پھینکنے لگا۔ یہ ایک مثالی کام تھا۔ بجلی،گیس،مہنگائی،تعلیم،بےروزگاری جیسے نیشنل اور دہشت گردی جیسے انٹرنیشنل مسائل اپنی جگہ ، مگر گٹروں، گندگی،اور ٹھیلوں اور گدھا گاڑیوں کی بھرمار جیسے چھوٹے مسائل کو دیکھیں ،تو انہوں نے صحیح معنوں میں ہماری زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگنے لگتا ہے کہ پیدائش سے ابتک ، عوامی طور پر گندگی کے ڈھیر میں رہتے رہتے ،یہSmell & Sight torture ہماری ناک اور آنکھوں سے ہماری رگوں میں اتر کر خون میں اس قدر ضم ہوگیا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان کا نام لیے پاک لوگوں کی رہنے والی جگہ میں صفائی کو نصف ایمان مانتے ہوئے ،کس قدر ناپاکی کی حالت میں اتنے عرصے سے جئے جارہے ہیں اور ہماری ترقی کس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے معاشرتی جہالت کے پردے میں غلاظت کی نظر ہوتا دیکھ کر بھی نہ عالمگیر خان جیسا کوئی عام انسان اس پر آواز اٹھاتا ہے، نہ ہی کوئی راقم القلم اس پر توجہ دیتا ہے اور نہ ہی ہماری سرکاری کو اس کی کوئی فکر ہے۔سرکار کو شائد اس غلاظت سے زیادہ وہ چند ووٹ عزیز ہیں ،جو شائد ان ٹھیلوں اور جانور گاڑیوں کی بستیوں سے بیلٹ میں ڈال تو دیے جاتے ہیں، مگر نہ ان کو تعلیم دی جاتی ہے اور نہ ہی صاف ستھرے ماحول میں رہنے کی تمیز سکھانے کے لیے کوئی سخت قوانین بنائے جاتے ہیں۔ یوں گندگی کے ڈھیر سے پروان چڑھے یہ چھوٹے چھوٹے مسائل نظر انداز ہوکر بھی ہماری تمام ترقی کو نظر لگا دیتے ہیں۔
( بشکریہ ؛ روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ