صبح کے چھ بج رہے تھے۔ ایمرجنسی کی نائٹ شفٹ ختم ہونے کو تھی،شدید رش کی وجہ سے پوری رات مریض دیکھ دیکھ کر میری کمر ٹوٹ گئی تھی اور اب مزید ہمت جواب دے رہی تھی، معدے و جگر کے مریضوں کی ایمرجنسی آپ پر طاری ہوجاتی ہے اور یہ رات یقینا تھکان سے بھر پور تھی، میرے پاس میڈیسن کی ایک جونئیر ڈاکٹر بھاگی آئی کہ سر آپ کی مدد چاہیے، ایک نوجوان مریض دل کے دورے کے ساتھ آیا ہے، مجھے سانس کی نالی ڈالنی تھی۔ جب کمرے میں داخل ہوا تو پاس ایک نوجوان خاتون اور اس کا چھوٹا سا بیٹا کھڑا تھا۔ داخل ہوتے ہی ای سی جی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ نوجوان قریب المرگ ہے۔ ملک الموت کہیں قریب موجود تھے۔ یہ خاتون اس نوجوان کی بیگم تھی۔ ان کو کمرے سے باہر لے آیا اور جان بچانے کی آخری کوشش کرنے لگے۔ موت یقینی تھی او ر وہ ہوگئی۔ اب مجھے اس شدید تکلیف دہ عمل سے گزرنا تھا جو پچھلے دس سال میں مجھ پر لرزہ طاری کردیتا ہے۔ آپ صبح کے اس پہر،ایک جوان عورت اور اس کے بچے کو یہ بتانے جا رہے تھے کہ ان کی زندگی کا سورج آج طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی غروب ہوچکا ہے۔ سو باتیں ادھر ادھر کی ،ان سے نظریں ملانا مشکل ہورہا تھا، او ر ان کی آنکھیں مجھے ایسے دیکھ رہی تھیں کہ بس ایسا ویسا کچھ نہیں۔ جس تکلیف سے زندگی میں ہزار بار گزرا ایک اور بار گزر گیا، اور انسان کی جان کی اصل حقیقت پر اعتبار میں مزید کمی ہو گئی۔ ہم کیا کیا خواب دیکھتے ہیں، کیا کیا محل کھڑے کرتے ہیں، کیسے کیسے تعصب پالتے ہیں، کچھ مل جائے تو کس طرح خود کو مختار کل ماننے لگتے ہیں اور حقیقت صرف ای سی جی کی یہ سیدھی لائن والی پٹی، اور باقی سب مٹی۔ جو واقعہ بیان کرنے جارہا ہوں یہ سب اسلامی کتب میں درج ہے اور اس سے متعلق شہر کا حوالہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ بحر احمر کے کنارے یمن کا شہرعدن آبا د ہے۔ اس شہر کے باسی روایت رکھتے ہیں کہ اکثر راتوں میں ایک خاص پہاڑ کی اوٹ سے تیز روشنی دکھائی دیتی ہے کہ جیسا وہاں کوئی سونے کے محلات ہوں۔ اس شہر کو شہرِ ارم یعنی شداد کی جنت کی روایت سے یاد رکھا جاتا ہے۔ حوالوں میں تحریر ہے کہ ملک الموت سے پوچھا گیا کہ کبھی اتنی جانیں قبض کرتے کسی پر ترس آیا ہے؟ جواب ملا ، جی دو بار۔ ایک بار سمندر میں ایک جہاز غرق ہوا۔ اس جہاز پر ایک ایسی عورت بھی سوار تھی کہ جس کے ہاں بچے کی ولادت ہونے کو تھی، گہرے سمندر میں سب غرق ہوگیا،بس ایک ٹوٹا تختہ تھا ،جس پر وہ عورت تیر رہی تھی، وہیں ایک بچے کا جنم ہوا، بچہ ماں کی چھاتی پر چمٹا دودھ پی رہا تھا کہ مجھے ماں کی روح قبض کرنے کا حکم ہوا۔ حکم کی تکمیل ہوئی اور بچہ ویسے تختے پر چھوڑ دیا۔ دوسری بار مجھے تب ترس آیا جب مجھے ایک ایسے بادشاہ کی زندگی ایک ایسے موقع پر لینے کو کہا گیا جو اس کا خواب تھا۔ یہ بادشاہ بہت طاقتور تھا، اس کی طاقت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ یہ خدائیت کا دعوی کر بیٹھا، وقت کے عالموں نے بادشاہ کو سمجھانے کی کوشش کی ، مگر وہ نہ مانا۔ آخر کار ان کو اپنی خدائیت پر قائل کرنے کے لیے اس نے اپنی جنت بنانے کا فیصلہ کیا۔ مختلف روایات ہیں کہ سونے اور دیگر جواہرات سے شہر کی دیواریں بنائی گئیں،اس شہر میں کئی سونے کے محل بنائے گئے، دودھ کی نہریں کھودی گئیں، پوری دنیا کی خوبصورت حوریں بسائی گئیں، حتی کہ ہر لذت سے آرائیش باغات آباد کیے گئے اوریوں بارہ سال لگا کر ،ارم نامی یہ جنت تیار کی گئی اور بادشاہ کو اس جنت کے نظارے کے لیے بلایا گیا۔ بادشاہ اپنی جنت میں داخل ہونے کو تھا کہ ایک پیر ہوا میں تھا کہ ملک الموت کو جان قبض کا حکم ہوگیا اور اس کو اپنی بنائی جنت کی ایک جھلک بھی نصیب نہیں ہوئی۔ ملک الموت کو دوسری بار اس بادشاہ پر ترس آیا کہ کم از کم اپنی اس جنت کی ایک جھلک تو دیکھ لیتا۔ اس بادشاہ کا نام شداد تھا۔ ملک الموت کو بتایا گیا کہ جس بچے کو تو گہرے سمندر میں تختے پر چھوڑ آیا تھا ،اس تختے کو حکم ہوا کہ اس بچے کو حفاظت کے ساتھ کنارے تک پہنچا دیا جائے۔ حکم کی تکمیل ہوئی۔ دوروایات ہیں کہ کسی مچھیرے کی بیگم یا کسی بھیڑکو اس بچے کی پرورش کا کہا گیا، یہ بچہ جنگل میں پلا بڑھا، ایک بار اس جنگل سے کسی طاقتور بادشاہ کا لشکر گزر رہا تھا کہ اس کے خوف سے جنگ کی تمام رعایا بھاگ گئی ، مگر یہ بچہ کہیں چھپ گیا۔ بادشاہ کے پیادوں کو اس جنگل سے سرما ملا، ایک پیادے نے اپنی آنکھوں میں ڈالنا چاہا، مگر وہ زہر سمجھ کر رک گیا اور قریب چھپے اس بچے کی آنکھوں میں ڈالا دیا، بچہ بہت چالاک تھا،وہ مرنے کی اداکار ی کرنے لگا، پیادے وہاں سے روانہ ہوگئے، درحقیقت اس بچے کو سرمہ لگانے کے بعد زمین میں چھپے تمام خزانے دکھائی دینے لگے تھے۔ یہ بچہ اپنی اسی طاقت کے ذور پر بہت سارے خزانے جمع کرتا گیا اور بالآخر اس جنگل کا سردار بن گیا،اس نے ایک بڑی فوج تیار کی اور پہلے سے موجود بادشاہ پرحملہ کرکے خود بادشاہ بن گیا۔ اس بچے کا نام شداد تھا۔وہی شداد کہ جس نے خدائیت کا دعوی کیا تھا اور ارم نامی جنت بنائی تھی اور ملک الموت کو اس کی جان قبض کرتے اس پر رحم آیا تھا۔ یعنی ملک الموت کو دونوں بار ایک ہی شخص پر رحم آیا تھا۔ یہ تمام واقعہ تفسیر فتح العزیر میں بہت تفصیل سے درج ہے اور ارم شہر کے حوالے قرآن پاک میں موجود ہیں۔ ارم شہر میں شداد سمیت اس کی پوری قوم کو غرق کردیا گیا تھا اور اس شہر کو بھی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل کردیا گیا تھا۔ یمن کے شہر عدن پہاڑ کی اوٹ سے کبھی کبھار نظر آنے والی روشنیوں کے بارے میں مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اسی شہر کی نشانیاں ہیں۔ انسان زندگی میں کچھ بھی کرلے ،کتنی بھی طاقت حاصل کرلے، اس کو اپنی دو چیزوں پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایک اپنے کیے ترس پر، اور دوسرا اپنی زندگی کی حقیقت پر۔ انسان جب بھی کسی پر ترس کھاتا ہے اور ساتھ یہ نیت رکھتا ہے کہ اس کا کیا ترس اپنی اصل روح میں پلٹ کر اس کر واپس آئے گا، تو وہ غلطی کرتا ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی کی اصل حقیقت کا علم بھی صرف رب کی ذات کو ہے۔ انسان بڑے بڑے خواب دیکھتا ہے، دنیا کو تسخیر کرنے کی جہد میں رہتا ہے، جوں جوں اس کو اس کے خوابوں کی تکمیل حاصل ہوجاتی ہے ،وہ طاقت کے نشے میں سب بھول جاتا ہے اور یوں ان میں کچھ شداد کی کیفیت کا شکار ہوکر، دنیا پر ارم بنانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ غریبوں کا پیسہ لوٹ کر، کرپشن کرکے، دھوکہ دے کر، لوگوں کو ہر طرح کا نقصان پہنچا کر مال و متاع اکٹھا کیا جاتا ہے، اس دنیا پر اپنے لیے ہر آسائش خریدنے کے چکر میں انسان اپنی قبر بھاری کیے جاتا ہے۔ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ موت کو بھی شکست دینے کا دعوی دار دکھائی دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے اور اس نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اور یوں وہ ظاہر میں نہ سہی ، مگر باطن میں ضرور شداد بن جاتا ہے اور یہیں اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے، یہیں دریا ملنے لگتے ہیں اور تمام فرعونیت غرق ہونے لگتی ہے۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ملک الموت کو لاکھ ترس کے باوجود آپ کی جان قبض کرنے پڑتی ہے۔ بطور ڈاکٹر میں ہزاروں انسانوں کی جانوں کی صرف چند سیکنڈز میں پرواز کرتے دیکھ چکا ہوں، میں اس جوان ،عورت اور اس کے بچے کی آنکھوں کی حیران کن وحشت کی گہرائی بھی جانتا ہوں جس میں بس یہی سوال ہوتا ہے کہ ابھی تو بالکل ٹھیک تھے؟ ہم جسے ٹھیک سمجھ رہتے ہوتے ہیں، ہم سب میں وہی غلط ہے۔ ہم سب دنیا کو لاکھ شداد کی جنت سمجھ لیں، مگر ہم سب کی حقیقت گہرے سمندر کی تاریکیوں میں ٹوٹے تختے پر لیٹے اس بچے سے زیادہ نہیں ہے، جس کو چاہے تو رب وہیں غرق کردے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ رب کی رحمتوں اور اس کے عطا کردہ نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے، وہ ہمیں جتنا نوازے ہمیں اتنا اس کے قریب ہوجانا چاہیے، اتنی ہی عاجزی اپنے اندر لانی چاہیے اور اتنا ہی خود کو اس کے حضور سجدوں میں گرا دینا چاہیے۔ آپ اپنے نزدیک ہر اس شخص کا انجام دیکھ لیں ،جس نے عاجزی کوٹھکرا کر اپنے آپ کو زمینی خدا بنالیا اور دنیا پر ارم بنانے کی جنت میں لگ گیا،اور اس شخص کو بھی دیکھ لیں، کہ جس کو خدا نے ہر نعمت، مقام اور اختیارسے نواز اور پھر بھی وہ لوگوں سے محبت اور صلہ رحمی سے پیش آیا ہے، خدا کے آگے عاجز رہا ،جھکا رہا۔ زندگی کی حقیقت بس اتنی ہی ہے ۔ ہمیں شداد کی جنت سے زیادہ ،آخرت کی جنت کی جہد کرنی ہے، کیونکہ حقیقت وہی ہے ای سی جی کی سیدھی لائن والی پٹی، اور باقی سب مٹی۔
فیس بک کمینٹ