چند الفاظ پر مشتمل یہ تحریر میں رضی کی اس پوسٹ کے تسلسل میں لکھ رہا ہوں جس میں انہوں نے سینئر صحافی جناب حسین نقی کے ساتھ محترم چیف جسٹس کے مکالمے کا ذکر کیا ہے( جس میں توہین عدالت کی دھمکی شامل ہے)۔یہ تو ایک بڑی عدالت بلکہ عدالت عظمیٰ کہلانے والی عدالت کی کارر وائی کے دوران ہونے والی گفتگو ہے ۔ میں دو روز پہلے ایک ماتحت عدالت میں ہونے والی گفتگو ، جو میرے علاوہ اور بہت سے وکلاءاور سائلین نے بھی سنی ،آپ اور اپنے قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کر رہا ہوں۔۔
محترم جج صاحب کے سامنے ایک پچاس پچپن سال کی عمر کا باریش شخص کسی محکمے کی تیار کردہ ایک رپورٹ، جو عدالت کے حکم پر ہی تیار کی گئی ہوگی، جج صاحب کے سامنے پیش کرنے کے لیئے حاضر ہوا۔ جج صاحب نے رپورٹ لیتے ہوئے اس شخص کی طرف دیکھ کر تحکمانہ لہجے میں پوچھا۔۔” تم۔۔کون ہو؟ “۔۔دھیمے مودبانہ لہجے میں جواب آیا۔۔۔ ”جی۔ میں کانسٹیبل ہوں“ ۔۔تمہاری یونیفارم کہاں ہے۔۔؟ جج صاحب کے لہجے کی تمکنت اور درشتی میں اضافہ ہو گیا۔۔۔”سر ۔میں تو صرف یہ جواب داخل کرانے آیا ہوں “بوڑھے کانسٹیبل کی آواز میں لرزش ہم دور بیٹھے ہوئے تمام افراد نے محسوس کرتے ہوئے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔سب لوگوں کی نظر میں ایک طرح کی بے بسی کے ساتھ ساتھ بے حسی کا تاثر بھی میں نے محسوس کیا۔۔محترم جج صاحب نے بوڑھے کانسٹیبل کی عمر کا لحاظ کئے بغیر درشت لہجے میں فرمایا عدالت کے سامنے بحث کرتے ہو ۔۔جی ۔نہیں سر ۔ بےچارہ بوڑھا کانسٹیبل گھگھیانے لگا۔۔ اور ساتھ ہی جج صاحب نے اپنے اسٹینو کی طرف دیکھتے ہوئے حکم صادر فرمایا اس کا شو کاز نوٹس ایشو کرو۔اور اس کے افسران کو لکھو ۔۔پھر بوڑھے کانسٹیبل کی طرف دیکھتے ہوئے ،حکم دیا۔۔چلو۔۔جاﺅ۔۔ہٹو۔میرے سامنے سے۔۔ ادھر جا کر ۔۔بیٹھو ۔۔ سر ۔ وہ ۔ میں، بوڑھے کانسٹیبل کی زبان پر الفاظ اٹک رہے تھے۔۔ کیا ۔۔وہ میں ۔۔عدالت سے بحث کرتے ہو۔۔۔ ابھی تمہیں ۔۔کنٹمپٹ میں اندر کر دوں گا ۔بوڑھا کانسٹیبل گھبراتے ہوئے پیچھے کو مڑا تو محترم جج صاحب نے تحکمانہ آواز میں فرمایا۔۔ بیٹھ جاﺅ ۔۔ادھر۔۔یہ شو کاز نوٹس وصول کر کے جانا ۔اور اس کے ساتھ ہی اپنے اسٹینوکو شو کاز نوٹس لکھوانے لگے۔۔ عدالت کے کمرے میں ایک سکوت ۔ ایک سناٹا چھایا ہو اتھا۔۔جمہوریت زندہ باد۔۔عوامی حقوق پائیندہ باد۔۔پاک سر زمین۔۔شاد باد۔
فیس بک کمینٹ