پاکستان میں انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔ آپ عام زندگی سے جڑے کسی بھی نارمل زندگی کے جز کا مطالعہ کرلیں ،آپ کو اس جز میں ہر طرح کے لوگ ملیں گے۔ایک وہ جو اس کی مکمل مخالفت کریں گے اور ایک وہ جو اس کی حمایت کریں گے اور ایک وہ جو کریں گے مخالفت لیکن چھپ کر یہ کام عروج پر کریں گے ۔ میں جب چھوٹا تھا تو کسی ریلوے یا بس سٹیشن کے باتھ روم میں دروازے کے پیچھے لکھے جملوں اور فون نمبروں کا مطلب نہیں سمجھ پاتا تھا۔ جوں جوں بڑا ہوتا گیا تو سب سمجھ آنے لگا، پھر میں نے بیت الخلاءکے دروازے کی پیچھے لکھی غلاظت کو معاشرے کے ذہنوں میں عملی طو ر پر دیکھنا شروع کیا۔ شاید بیت الخلاءوہ جگہ ہوتی ہے جہاں انسان اپنی سوچوں کا محور کسی اور جگہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتا ہے،جن لوگوں کے ہاتھوں میں فون نہیں ہوتا ان کے ذہن میں شاید وہی چل رہا ہوتا جو وہ دروازے کے پیچھے لکھ دیتے ہیں۔ اس بات کی تحقیق کی جہد میں،میں نے اپنے معاشرے کو جسمانی ضرورت کے معاملے دنیا میں سب سے زیادہ frustrate پایا۔ خاندان کا بوجھ، دیر سے شادیاں، جہیز کی لعنت،، نکاح کو مشکل بنا دینا، ہر طرح کے جنسی مواد کی باآسانی فراہمی اور اب یہ سوشل میڈیا اور جدید اینڈرائیڈ فون۔ اس نے ایک جاہل معاشرے کو درندوں پر محیط معاشرے بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔
تعلیم قومی طور پر تو ہمیں حاصل کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ نہیں ، مگر ہر چیز کے آداب ہوتے ہیں،سلیقہ ہوتا ہے۔ وہ تعلیم کے
بغیر بھی سکھایا جاسکتا ہے، مگر ہم انسان کی کھانے پینے کے بعد تیسری اہم ترین بنیادی ضرورت پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ یہ ایک taboo ہے۔ مہذب معاشرے جنس کی مہذب زدہ تعلیم کو باقائدہ نصاب کا حصہ بنا چکے ہیں اور ہمارے ہاں یہ کام ماں باپ کو سونپ دیا گیا ہے۔ معاشرے کی اخلاقی اقدار کو دیکھا جائے تو یہ بات کسی طور درست ہے، مگر کیا ماں باپ جن کی اپنی تعلیم، علم صفر ہو؟ جن کو خود جنسی تہذیب کا علم نہ ہو؟ جو دو وقت کی روٹی کے چکر سے نہ نکل رہے ہوں؟ کیا وہ یہ معاشرتی ذمہ داری پوری طرح پوری کررہے ہیں؟ شاید چند پڑھے لکھے گھرانوں میں یہ چیز ممکن ہے، مگر عمومی طور پر ایسا نہیں ہورہا اور نتیجہ میں ہم درندے بنتے جارہے ہیں۔ ایسے درندے جو دو ماہ سے لے کر دس بارہ سال کی بچی یا بچہ تک نہیں چھوڑتے ۔ جو بے راہ روی کے اس عروج پر ہیں کہ اگر آپ سوشل میڈیا ویب سائیٹس پر کسی قسم کی بھی اخلاقی گراوٹ کے طالب ہوں تو آپ کو ایسے آئی ڈی اور لوگ ملنے لگیں گے جو سب کرنے کو تیار ہوں گے اور غربت نے اس اخلاقی پستی میں مزید اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ پوری دنیا میں بلیک سائٹس تک پراکسی براﺅزرز کے ذریعے رسائی حاصل کرنے میں ہم بھارت کے ساتھ پہلے نمبر پر کھڑے ہیں۔ کہتے ہیں طلب زیادہ ہو اور رسد ہو ہی نہیں تو بھوک میں درندہ چیر پھاڑ شروع کردیتا اور اس پر جب قانون بھی ناپید ہو تو معاشرے جنگل سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں۔ مگر قانون سے اس چیز کو کسی طور قابو کیا جاسکتا ہے،اس کی مثال ایران ہے۔ 20 ستمبر 2017ء کے دنیا بھر کے اخبارات ، ایران کے شہر پارساباد کے شمال میں ایک قصبے میں ہونے والی پھانسی کے بارے میں تفصیلات سے بھرے پڑے تھے۔ایران کے شہر میں اتینا اسلانی نامی سات سالہ معصوم بچی زیادتی کے بعد قتل کردی گئی۔بچی کا والد کپڑے کا تاجر تھا، بچی والد کی دکان سے باہر نکلی اور پھر غائب ہوگئی۔ بچی کی گمشدگی کو اس کا باپ اغوا سمجھتا رہا، سی سی ٹی وی فٹیج نکالی گئی تو بچی ،اسماعیل جعفرزادہ نامی شخص کی دکان میں داخل ہوتی نظر آئی۔پولیس آئی اور تفتیش کے بعد بچی کی لاش ، دکان کی پارکنگ سے مل گئی۔۔یہ واقعہ 19 جون 2017ءکو پیش آیا، 20 جون 2017ءکو مجرم گرفتار ہوگیا،11 ستمبر 2017ء کو اسے سزا سنائی گئی اور ہزاروں لوگوں کے سامنے خوشی سے چیختے مجمع کے سامنے اسماعیل کو ایک کرین سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔سزا کا یہ سارا عمل تین ماہ میں مکمل ہوگیا اور یوں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔پاکستان کے شہر قصور میں 4 جنوری 2018ءکو چھ سالہ زینب کو خالہ کے گھر کے قریب سے مدرسے جاتے اغوا کرلیا جاتا ہے۔ پانچ جنوری کو سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کے حوالے کردی گئی اور اس کے قاتلوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔دس جنوری کو اس بچی کی لاش ،اس کے اغوا ہونے والی جگہ سے دو گلیوں دور ملتی ہے۔اس بچی کو انہی تین گلیوں میں کہیں رکھ کر ،کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سارے عمل میں بچی کے والدین عمرے کے لیے اللہ کے گھر تھے اور ان کے پیچھے قیامت ٹوٹ رہی تھی۔یہ قصور میں اپنی طرز کا 12 واں واقعہ تھا اور بچیوں کے سیریل ریپ اور پھر انہیں قتل کرنے والا قاتل ،پولیس کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔ شدید عوامی غصے کے بعد عمران علی نامی شخص ان سیریل ریپ ٹارچر میں ملوث پایا گیا۔ جسے 17 اکتوبر، 2018 کو تختہ دار سے لٹکا دیا گیا۔ زینب کے والد امین انصاری کا مطالبہ آخری وقت تک یہی تھا کہ اسماعیل جعفر زادہ کی طرز پر یہ پھانسی سرعام دی جائے، مگر ایسا کوٹ لکھپت جیل کی چار دیواری میں ہوا اور بہت سے لوگ عمران علی کا آخری انجام دیکھنے سے محروم رہے۔ عمران علی کے واقعے کے بعد میں ذاتی طور پر سمجھتا تھا کہ اس قسم کے واقعات ختم نہ سہی، کم ضرور ہوں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر آئے دن کبھی کسی جوان لڑکی کی نہر سے ملی سرکٹی لاش کی تصویر، کبھی کسی ننھی بچی کی اور کبھی بچے کی تصویر وائرل ہونے لگی اور ان سب کوبدترین حیوانی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا ۔ واقعات سوشل میڈیا پر آئے دن زیادہ دکھائی دینے لگے اور جو Trending میں نہ آئے،وہ آنکھ اوجھل ،پہاڑ اوجھل ہوگئے۔ رمضان کے مہینے میں اربابِ اختیار کے گھر سے دس کلومیٹر دور اسلام آباد شہر کے علاقے چک شہزاد میں 15 مئی 2019ءکی شام فرشتہ مہمند نامی دس سالہ بچی گم ہوجاتی ہے۔ باپ تھانے جاتا ہے تو ایس ایچ او یہ کہہ کر بھگا دیتا ہے کہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ چار دن بعد اس معصوم فرشتہ کی تعفن زدہ نوچی ہوئی، لاش چک شہزاد سے ملتی ہے،جسے انسانی حیوانوں کے بعد جانوروں نے بھی نوچ رکھا تھا۔ Justice for Farishta پھر ٹرینڈنگ میں آجاتا ہے، حکامِ بالا کو ہوش آتا ہے اور پھر ایس ایچ او معطل اور مجرم کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ مجرم مل گیا تو زیادہ سے زیادہ اس کا انجام عمران علی جیسا ہوگا؟ مگر یہاں بہت سے سوال ایسے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں اور معاشرے کو اب اپنی بیٹیوں اور آنے والی نسلوں کی خاطر بہت غور و فکر کرنا ہوگا۔ پہلی ذمہ داری قانون کی ہے، جو ایسے واقعات میں ایران کے نقشِ قدم پر فوری سزا اور سرِ عا م پھانسی پر عمل کرے۔دوسرا امر جنسی تہذیب کا ہے اور اس کی ابتدا گھر سے ہوگی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو پانچ چھ سال کی عمر میں یہ بتائیں کہ غیر فطری طور پر چھونا کیا ہوتا ہے، گندی نگاہ کیا ہوتی ہے ۔ان کو ان کے جسم کے ڈھانپے جانے والے اعضاءکی حفاظت کے بارے میں تعلیم دی جائے۔کسی بھی بچے خاص کر بچیوں کو کسی بھی قریبی ترین رشتہ دار کو بھی بوسہ دینے یا قریب جانے سے دور رکھا جائے۔ بچے بڑے ہوں تو ان کو اس پر مزید تعلیم دی جائے اور جیسے ہی بچے بلوغت کی عمر کو پہنچیں ان کی جلد از جلد شادی کا اہتمام کیا جائے۔اس میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے ، کیرئیر بنانے، ذات پات برادری ، صوبائیت،لسانیت اور جہیز جیسی لعنتوں کو نکاح جیسے حلال کام پر مسلط نہ ہونے دیا جائے ۔ نکاح کو آسان بنایا جائے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ویسٹ کا گرل فرینڈ کلچر اور Living relationship فروغ پذیر ہو،وہاں نکاح میں آسانی ہی جنسی تہذیب کو معاشرے میں عام کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ تعلیم سے دوری، جہالت اور جنسی بد تہذیبی ، ہمیں معاشرتی طور پر پھر درندوں سے بھری بستی میں لے آئی ہے،ایسی بستی جہاں حیوانیت اور لاقانونیت اپنے عروج پر ہے اور جہاں فرشتوں کو جانیں دینے کی بجائے درندے ان کی جانیں لینے لگے ہیں۔ راقم الحروف ایک بیٹی کا باپ ہے اور زینب اور فرشتہ کے واقعے کے بعد، مجھے بطور باپ اور اس ملک کے باسی کے ، ہر در و دیوار سے خوف آنے لگا ہے۔ یہاں شاید کچھ بھی ایسا نہیں ہے ،یاں کچھ بچا نہیں ہے کہ جس کے سہارے ہم اپنی نسلوں کو ان کی جان مال اور عزت کے مکمل تحفظ کا یقین دلا سکیں۔ اتینا اسلانی ، زینب اور فرشتہ کے واقعات میں گر ہر قدر مشترک سہی ، مگر پھر بھی اتینا کی روح زینب اور فرشتہ کی روح کے مقابلے میں بہت سکون میں ہوگی۔اتینا اسلانی ایک ایسے معاشرے کی باسی تھی کہ جہاں قانون و انصاف زندہ تھا، وہ ملک ایٹمی لحاظ سے، امریکی دوستی کے لحاظ سے، معاشی لحاظ سے ہم سے جتنا بھی پیچھے کیوں نہ ہوں، وہ ملک ایٹم بم نہ ہوتے ہوئے بھی اتنا طاقتور ضرور تھا کہ وہاں ان کی بیٹوں کی عزت محفوظ تھی۔جن معاشروں میں میں قانون، انصاف ، تعلیم اور تہذیب ہوتی ہے ، وہاں انسانوں کے روپ میں موجود چندبھیڑیے اپنے اندر کے جانور کوقابو میں رکھتے ہیں، جن کا بھیڑیا باہر آجائے ،پورا معاشرہ اور معاشرے میں موجود قانون اور انصاف ،اس کو ایسی عبرت کا نشانہ بناتاہے کہ آنے والی کئی نسلوں میں پھر کسی کو ایسی حیوانگی کی جسارت نہیں ہوتی۔ معاشروں میں میرٹ، قانون اور انصاف ، تعلیم،روزگار اور صحت جیسی بنیادی ضروریات دینے سے آتا ہے ۔جہاں کے افراد غربت،آبادی اور جہالت جیسے مسائل سے نکل کر ، اصلاح کی جانب آتے ہیں،ان میں اخلاقیات اور شعور پروان چڑھتا ہے ۔پھر میری طرح کسی باپ کو اس کے ایٹمی ملک کے درو دیوار سے خوف نہیں آتا۔کسی زینب اور فرشتہ کی چیخوں کی گونج اس کی نیندیں نہیں اڑاتی او ر وہ اپنی بیٹی کو سینے پر فکر سے سلانے کے جتن نہیں کرتا۔وہ جانتاہے کہ وہ مہذب معاشرے کا باسی ہے جہاں اسکی ،اسکی نسلوں کی جان،مال ،عزت اور مستقبل سب محفوظ ہے۔آخر میں انصاف کی متلاشی فرشتہ اور اس جیسے کئی معصوموں کی جانب سے انصاف سے عاری معاشروں کے لیے اتنا ہی۔
مجھے شہروں سے اندازہ ہوا ہے
درندے اب نہیں ہیں جنگلوں میں