رات کے دو بج رہے تھے، سحری کا وقت قریب تھا۔ میں گاڑی میں اکیلا تھا،اشارے پر گاڑی روکی تو کسی نے شیشہ کھٹکھٹایا ، سنسان رات میں اشارے پر رات کے اس پہر یہ کون تھا جو بھیک مانگ رہا تھا۔ ایسا تو کبھی اسلام آباد، راولپنڈی کی سڑکوں پر نہیں ہوا اور یہ پھر ملتان تھا۔ یہ ایک خواجہ سراءتھا، خوب میک اپ اور حسین لڑکی کا روپ، جیسے کوئی حور ہو۔ میں ایک دم بوکھلا گیا، ڈر کے مارے شیشہ نیچے نہ کیا، تو وہ اور زور سے شیشہ بجانے لگا، مجھے اس سے خوف آرہا تھا۔ ہمت کر کے شیشہ نیچے کیا تو کہنے لگا، بابو کچھ دے دو،عید قریب ہے۔ میں نے پیسے نکالے تو کہنے لگا،تھوڑے اور دے دو، مجھے ایڈز ہے ،اس کی تو میں دوائی لے لوں گی۔ میں دیر تک اس کی آنکھوں کی وحشت پڑھتا رہا، بٹوے میں جتنے پیسے تھے،اس کے ہاتھ پر رکھے اور آگے نکل گیا۔ ایک خواجہ سراءنے رات کے اس پہر مجھے ایک نئی سوچ دی تھی۔ میں ایڈز پر یونائیٹڈ نیشن کی ایک تنظیم کے ساتھ تحقیق میں مصروف تھا،اور میرے لیے یہ سب حیران کن تھا کہ وہ بیماری جس میں مبتلا 1 لاکھ 45 ہزار پاکستانی،اس سے واقف ہی نہیں،اس خواجہ سراءکو اپنی اس بیماری کا علم بھی تھا،اور وہ اس کا کھلے عام اظہار بھی کررہا تھا اور علاج بھی کرارہا تھا۔مجھ جیسے طالب علم کے لیے اس میں حیرانی سے زیادہ خوشی کی بات تھی اور اس کا اندازہ مجھے تفصیلات جان کرہوا۔
دنیا میں اس وقت ایڈز کے مریضوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور ان میں 94 لاکھ مریض ایسے ہیں جن کو اپنی بیماری کے بارے میں کوئی جان کاری نہیں ہے۔پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ افراد میں ایڈز کا مرض ہونے کا خدشہ ہے،جن میں سے صرف بیس فیصد کو اپنی بیماری کا علم ہے، صرف 16 فیصد اپنا ٹیسٹ کراتے ہیں جب کہ علاج کے لیے صرف 9 فیصد لوگ حامی بھرتے ہیں اور انہی کو علاج تک رسائی ہے۔یہ خواجہ سراءان 9 فیصد میں تھا۔ 2010ءسے اب تک ایڈز کے کیسز میں 45 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں ایڈز کا وائرس وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔صرف اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ہر ماہ 40 نئے ایڈز کے مریض رجسٹر ڈ کیے جارہے ہیں۔ستمبر 2017ءمیں چنیوٹ پنجاب میں ایڈز کے 57 کیسز سامنے آئے ، جن میں 17 جان کی بازی ہار گئے اور جب سکریننگ کیمپ لگا کر وہاں ایڈز کا پتہ چلایا گیا تو آنے والا افراد میں ستر افراد میں ایڈز کے مرض کے وائرس ایچ آئی وی کی تصدیق ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد محکمہ صحت ایکشن میں آیا تو نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے سروے کرایا گیا جس کے مطابق پنجاب میں اس وقت ایڈز کے 75 ہزار مریض موجود ہیں،جن میں 26 فیصد کا تعلق وزیر اعلی پنجاب کے آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ سندھ میں اس وقت ایڈز کے ساٹھ ہزار مریض موجود ہیں، جبکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ایسے کیسز کی تعداد پندرہ ہزار ہے۔ پاکستان میں پندرہ سال سے زائد عمر کے ایک لاکھ 45 ہزار ایڈز کے مریضوں میں 99 ہزار مرد اور 43 ہزار خواتین ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ساڑھے تین ہزار بچے ایڈز میں مبتلا ہیں۔ اس وقت ہر سال بیس ہزار افراد کو پاکستان میں ایڈز کا وائرس منتقل ہورہا ہے اور چھ ہزار ہر سال اس کی بدترین صورت کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ پاکستان میں 21 فیصد منشیات کے عادی افراد میں ایڈز کا وائرس موجود ہے۔اس وقت پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور سندھ میں لاڑکانہ میں یہ مرض بدترین صورتحال اختیار کر چکا ہے اور یہاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کی جانب سے صومالیہ طرز کی ایمرجنسی نافذ ہے۔ صرف ڈیرہ غازی خان میں سات ہزار افراد ایڈز کا شکار ہیں اور تین ہزار افراد ڈی جی خان کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں علاج کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں کا قصبہ کوٹ مبارک پورے پاکستان میں ایڈز کی وباءکا سب سے زیادہ متاثر علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ قصبہ سخی سرور، شاہ صدر دین اور جام پور میں بھی ایڈز کے کیسز کی تعداد حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ لاڑکانہ میں حال ہی میں ڈاکٹر مظفر نامی ایک ڈاکٹر کو رتو ڈیر و کے علاقے میں گرفتار کیا گیا۔ یہ بچوں کے ڈاکٹر تھے،ان کی وہاں اچھی خاصی پریکٹس تھی۔ان پر الزام یہ تھاکہ انہوں نے وہاں 45 بچوں کو استعمال شدہ سرنج استعمال کرکے اپنے جسم کا ایڈز کا وائرس منتقل کردیا۔ تحقیقات پر معلوم ہواکہ وہاں کی لوکل انتظامیہ لاڑکانہ میں ایڈز کی وباءپھوٹنے کی ذمہ داری کسی پر ڈالنے چاہتی تھی اور یوں ڈاکٹر مظفر کو قربانی کا بکرا بنایا گیا،جبکہ وہ خود فرائض کی ادائیگی میں ایڈز کا شکار ہوئے تھے اور ان کو اس بات کا علم بھی سکریننگ کے دوران ہی ہوا تھا۔ ملک میں سیاسی ماحول گرم ہوا تو سب سے زیادہ تنقید پاکستان پیپلز پارٹی پر کی جانے لگی کہ سندھ میں صحت کی سہولیات کا یہ حال ہے کہ لاڑکانہ میں بچے ایڈز سے مررہے ہیں اور اس پر توجہ نہیں دی جارہی، جبکہ سیاسی سے زیادہ پریشان کن صورتحال تھی۔ کیونکہ ایڈز کے وائرس کا سندھ ، پنجاب کے نواحی علاقوں اور اب بڑے شہروں میں پھیلنا خطرناک آفت کا پیش خیمہ ہے۔ صومالیہ میں ایڈز کے پھیلاﺅ کی وجہ سے پوری دنیا میں وہاں کے باشندوں کو ویزے کے حصول میں جو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،وہ ایک الگ کہانی سہی ، مگر ہمارے ہرے پاسپورٹ پر جب دہشت گردی کے ساتھ ایڈز کا داغ بھی لگ گیا تو ہم دنیا سے مکمل طور پر کٹ جائیں گے۔ سفارتی کے ساتھ ایڈز کا وائرس وبائی شکل اختیار کرتا پھیلتا چلا گیا تو یہ ہیپاٹائیٹس بی اور سی کی طرح پوری کی پوری بستیاں برباد کردے گے ، ہنستے بستے گھر اجاڑ دے گا اور اس طرف کسی قسم کی کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ہاں شرمناک حد تک ایڈزکے پھیلاﺅ کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے، جو افریکہ کے جنگلوں میں وائرس کے 1980ءمیں دریافت کے وقت پائی گئی تھی۔ یہ وائرس افریکہ میں بندروں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ کانگو میں ایک خاص قسم کے بندرsooty mangabeys کا گوشت کھانے اور ان سے جنسی تعلقات کی صورت میں یہ وائرس سب سے پہلے انسانوں میں منتقل ہوا اور پھر ہم جنس پرستی عام ہونے کے باعث یہ کانگو اور پھر پورے افریکہ میں پھیلتا چلا گیا۔ یہاں سے یہ وائرس امریکہ کے 1983ءمیں قائم ہم جنس پرست کلبوں میں پہنچا اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پاکستان میں یہ وائرس لانے کی بڑی وجہ دبئی اور دیگر ملکوں میں کام کرنے والے مذدور پیشہ افراد ہیں ۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق غیر ازدواجی اور غیر فطری تعلقات کے ساتھ ساتھ نشہ کے لیے ایک دوسرے کی سرنج کا استعمال اور درختوں کے نیچے بیٹھے دندان ساز اور حجام پاکستان میں اس وباء کے پھیلاﺅ کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ پھر انتقال خون میں لاپرواہی اور ہسپتال میں جراحی میں استعمال کیے گئے اوزاروں کی نامکمل صفائی بھی اس بیماری کے پھیلاﺅ کا بہت بڑا موجب ہیں۔ ماں سے بچے میں وائرس کی منتقلی کے معاملے میں بھی ہمارا حال پوری دنیا میں سب سے بدتر ہیں۔یہاں ایسے کیس بھی رپورٹ ہوچکے ہیں کہ اگر ماں کے جسم میں ایڈز کا وائرس موجود ہے تو اس کے آٹھ دس بچے بھی یہ وائرس لے کرگھوم رہے ہیں اور کسی کو بیماری کا علم نہیں۔ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر پاکستان کو آنے والی اس آفت سے بچانے کے لیے انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ مل کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس ضمن میں سب سے اہم کام عام لوگوں کی سکریننگ یعنی ان میں ایڈز کے مرض کے ٹیسٹ کرکے ،اس وائرس کی تشخص اور اس کے بچاﺅ کے بارے میں آگاہی کا پھیلاﺅ کرنا ہوگا۔ میڈیا اس سارے عمل میں سب سے اہم کردار ادار کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں کو اس بیماری کے بارے میں آگاہی دے۔ لوگوں کو اس کی سکریننگ کرانے پر قائل کرے اور ان سے بچاﺅ کے طریقے بتائے۔ بھارت کے بعد جنوبی ایشاءمیں پاکستان کا ایڈز میں پھیلاﺅ میں ہوشربا اضافہ یقینا آنے والے وقت میں ہمیں سوڈان، صومالیہ اور کانگو جیسے ممالک کے ساتھ لاکھڑا کرے گا۔ دہشت گردی، غربت، مہنگائی اور معاشی بدحالی کا شکار قوم ایڈز کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا، مگر ہمیں اس وقت کو آنے سے پہلے روکنا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہوگا کہ جب اشارے پر رکنے والی گاڑی کا شیشہ اترنے پر رات کے دو بجے ویران سڑک پر کھڑا اس کا مریض اپنی بیماری اور علاج کا علم رکھے گا،اس کے بارے میں اگلے شخص کو آگاہی دے گا اور اپنے علاج پر قائل ہوگا اور سب سے بڑھ کر اس بیماری کو اچھوت اور بے شرمی کا لیبل لگا کر دنیا سے نہیں چھپائے گا۔تبھی ہم صحیح معنوں میں ایڈز کے وائرس کو اپنی نسلوں کے خون میں زہر بن کر پھیلنے سے روک سکیں گے۔ رات کے دو بجے اس خواجہ سراءنے جس سوچ کو میرے ذہن میں جنم دیا تھا،اسے اس معاشرے میں ہم سب نے مل کر عام کرنا ہے۔