نومبر اور دسمبر ادبی حلقوں پر اکثر بھاری ہوتا ہے ۔ ان مہینوں میں کئی نامور اہل قلم اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ادبی حلقوں کی پہچان دوتخلیق کار محترمہ فہمیدہ ریاض اور جھنگ میں مقیم معروف غزل گو صفدر سلیم سیال انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
فہمیدہ ریاض جدید نظم میں ایک اہم نام اور مقام کی حامل تھیں۔ کراچی میں رہتی تھیں۔ لاہور میں اپنی بیٹی کے ہاں آئی ہوئی تھیں اور یہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ بیشتر احباب کا خیال تھا کہ انہیں کراچی لے جایا گیا ہوگا۔ جنازے اور تدفین کی باقاعدہ کوئی اطلاع بھی نہیں تھی شاید یہی سبب ہے کہ ان کے جنازے میں اہل قلم سوائے ایک دو کے شریک نہ ہوسکے۔ سنا ہے کسی نے ان کے جنازے میں اہل قلم کی کم حاضری پر تنقید کی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ فہمیدہ ریاض مزاحمتی لب ولہجے کی شاعرہ تھیں ان کی شاعری میں ان کا بے باکانہ انداز بعض ناقدین کو ممکن ہے پسند نہ ہوتاہم وہ ایک جنوئن تخلیق کارہ تھیں۔ مارشل لاءکے دورمیں بھارت میں خودساختہ جلاوطن بھی رہیں۔ 1946ءمیں میرٹھ بھارت میں پیدا ہوئیں اور 22نومبر (2018ء) کو خالق حقیقی سے جاملیں۔ ان کی نظم ملاحظہ ہو:
دنیا کی لمبی راہوں پر ہم یوں تو چلتے جاتے ہیں
کچھ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو یاد ہمیشہ آتے ہیں
وہ راہ بدلتے ہیں اپنی اور مڑکر ہاتھ ہلاتے ہیں
لیکن وہ دلوں کو یادوں کی خوشبو بن کر مہکاتے ہیں
ایسے ہی سفر کرتے کرتے اک شخص ملا ہم کو بھی کہیں
دنیا میں اچھے لوگ بہت، لیکن اس کی سی بات نہیں
وہ دھیمے لہجے والا تھا اور دھیرے سے وہ ہنستا تھا
جتنے بھی لوگ ملے ہم کو سچ جانو سب سے اچھا تھا
ان کی اہم کتب میں ”کراچی “ (ناول ) اور شعری مجموعوں میں بدن دریدہ ، خط مرموز، پتھر کی زبان، دھوپ، ادھورا آدمی شامل ہیں۔ انہوں نے مولانا روم کی مثنوی کا ترجمہ بھی کیا۔ آپ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہ بھی رہیں۔ کچھ عرصہ اردو لغت بورڈ سے بھی وابستہ رہیں، حکومت نے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور ستارہ امتیاز بھی دیا۔
اردو غزل کے ممتاز شاعر صفدر سلیم سیال کا تعلق جھنگ سے تھا وہ پچھلے کچھ مہینوں سے علیل تھے۔ دوروز قبل جھنگ سے آئے چناب کالج کے پروفیسر ذوالفقار اور نوجوان دانشور محسن عباس مجھے ملنے ایف سی کالج تشریف لائے۔
تومیرے پاس پروفیسر نجیب جمال بھی تشریف فرما تھے، ہم دونوں نے ان سے صفدر سلیم سیال کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے خبردی کہ وہ علیل ہیں اور پھر دوروز بعد ہی فیس بک سے پتہ چلا کہ صفدر سلیم سیال ہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ ان کی آنے والی کتاب پر میری رائے بھی تھی۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے بتایا کہ کمپوزر سے ان کی شاعری پر چند آراءگم ہوگئی ہیں آپ دوبارہ ارسال فرمائیں مگر مجھے کیا خبر تھی کہ وہ ہم سے اس قدر جلدی روٹھ جائیں گے۔ صفدر سلیم سیال کا ایک شعر جو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر کہا بہت مقبول ہوا تھا اور اس مقبولیت کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا۔ شعر تھا:
تجھ کو مرنا تھا تجھے موت تو آجانی تھی
دکھ تو یہ ہے تیرا قاتل تیرا درباری تھا
صفدر سلیم سیال ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنے کھیتوں کے چاول اور اپنے فارم ہاؤس کے کمادسے تیار شدہ چینی احباب کو تحفتاً بھیجا کرتے تھے۔ آپ نے اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی سے (1959-60)میں ماسٹر کیا۔ کالج کے مجلے قحور“ کے پہلے مدیر بھی تھے۔ 5جنوری 1936ءمیں پیدا ہونے والا یہ خوبصورت شاعر 23نومبر کو ادبی حلقوں کو اداس کر گیا۔
صفدر سلیم سیال کی غزل رومان اور انقلاب کی آمیزش کے سبب انہیں فیض کے قبیلے سے ملاتی ہے ۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
رستوں پہ نہ بیٹھو کہ ہوا تنگ کرے گی
بچھڑے ہوئے لوگوں کی صداتنگ کرے گی
مت ٹوٹ کے چاہو اسے آغاز سفر میں
بچھڑے گا تو اک ایک ادا تنگ کرے گی
اپنی سانسیں مری سانسوں میں ملا کر رونا
جب بھی رونا مجھے سینے سے لگا کر رونا
بچھڑنے کا وہ پہلے سے تہیہ کرچکا تھا
اسے میری طرف سے بدگمانی چاہیے تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک کتا کہہ رہا تھا اپنے ساتھی سے سلیم
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
بلند وپست کے غم سے جو بے نیاز کرے
وہ روشنی ، وہ بصیرت کہاں سے آتی ہے
صفدر سلیم سیال کے دوشعری مجموعے پیش نظر اور خواب تبدیل کریں شائع ہوچکے ہیں۔
اور اب آخر میں پلاک میں منعقد ہونے والے قومی نعتیہ مشاعرہ کا ذکر اس مشاعرے کا انعقاد سٹی 42کے اشتراک سے کیا گیا تھا اور اہم بات یہ تھی کہ نوید چودھری خود مشاعرے کے آخرتک یہاں موجود رہے۔ صدارت امجد اسلام امجد نے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر صغرا صدف نے ادا کیے۔ شعرائے کرام میں باقی احمد پوری، خالد شریف، شفیق سلیمی، ظفرعلی راجا، حسین مجروح، رائے محمد خان ناصر، سعداللہ شاہ ، ناصر بشیر، واجد امیر، حمیدہ شاہین ، فرحت عباس شاہ ، سلیم طاہر سجاد بلوچ، آغاثنائی، عبدالمجید چٹھہ، غافر شہزاد ،شاہدہ دلاور شاہ ، عنبرین صلاح الدین، خاقان حیدر غازی ، توقیر شریفی اور دیگر شعراءنے اپنا اپنا کلام پیش کیا اس شعر کے ساتھ اجازت :
سجدہ ضرور آئے گا اگلے پڑاؤ میں
فی الحال تو یہ سارا زمانہ قیام ہے
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ