سول ایوارڈ کے لئے 14 اگست کو اعلان کیا جاتا ہے اور پھر 23 مارچ کو یہ ایوارڈ تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ جو ایوارڈ تقسیم کئے گئے ان میں ادب سے متعلق (ایوارڈ) آٹے میں نمک کے برابر تھے، بہت سے پی ٹی آئی کے کلمہ خیر کہنے اور لکھنے والے توقع کر رہے تھے کہ ان میں سے بھی بعض کی خدمات پر کوئی نہ کوئی ایوارڈ ضرور ملے گا لیکن انہیں بھی مایوسی ہوئی، لے دے کے ایک فنکارہ مہوش حیات کو ”تمغہ امتیاز“ سے نوازا گیا، ہو سکتا ہے اپنے شعبے میں اس کی پرفارمنس ایسی ہو جس پر اسے یہ تمغہ دیا گیا ہے ان دنوں سوشل میڈیا پر مہوش حیات کے ایوارڈ کی ”دھوم“ مچی ہوئی ہے ، فنکاروں میں بھی جیلسی ہوتی ہے جسے نہ ملے وہ ایوارڈ پانے والے پر غم و غصہ کا اظہار بھی کرتا ہے مگر جس طرح اور جن ناموں سے ”مہوش“ سوشل میڈیا خاص طور پر ”فیس بک“ پر زیربحث ہے نہایت افسوس ناک ہے ایسے لگتا ہے جیسے ہمارا سب سے ”اہم ایشو“ یہی ہے ۔ ایوارڈ پر ہر کوئی خوش بھی نہیں ہوتا صرف ایوارڈ حاصل کرنے والا خود کو مزید معتبر اور محترم سمجھنے لگتا ہے ۔ مہوش اس حوالے سے بدقسمت ٹھہریں کہ ان کو ایوارڈ کے بعد شہرت سے زیادہ رسوائی کا سامنا ہے ۔ شہرت اور رسوائی میں باریک سا فرق ہے اس ایوارڈ کو وہ سینے پر سجا کر تصویر بنوانے کے بجائے ”شکریے“ کے ساتھ واپس کر دیتیں تو ان کے وقار میں اضافہ ہوتا، لیکن یہ تو اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ ایک بار فلم کے ایک مشہور ہدایت کار نے ”بازار حسن“ کی ایک رقاصہ اور مغنیہ کو اپنی فلم میں کاسٹ کرنے کی آفر کی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ”بہت شکریہ سرجی! مجھے اللہ یہیں عزت کی روزی دے رہا ہے مجھے فلموں میں جانے کی کیا ضرورت ہے “۔
مہوش فلموں اور ڈراموں میں عزت و احترام سے ”نام“ کما رہی تھیں انہیں کیا ضرورت تھی کہ اس ”تمغہ“کو اپنے لئے امتیاز سمجھتے ہوئے کسی پی ٹی آئی کی ”بااثر“ شخصیت کا سہارا لیتیں، یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ تمغے اور ایوارڈ اثرورسوخ کے بغیر کم ہی ملتے ہیں۔ کیونکہ اوپر تک ناموں کی فائل بھیجنے والے بھی انسان ہیں اور فائل کا پیچھا کئے بغیر ایوارڈ تک رسائی ”کار دشوار“ ہے ، ہمارے ہاں تو ایوارڈ بھیجنے والے اداروں کے افسران خود اپنانام بھی بھیجنے سے نہیں شرماتے“۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں تو بیورو کریسی کی اچھی خاصی تعداد بھی ”سول ایوارڈ“ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ گویا جو ایوارڈ دیتے ہیں انہوں نے ایوارڈ خود اپنے نام کر لئے۔ سنا ہے اس وقت کی بیورو کریسی میں ”نرگسیت“ کچھ زیادہ تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی اپنے دھڑے کے فنکاروں، شاعروں، ادیبوں کو خوب ”نوازا“ نوازنے میں ”نواز“ حکومت کبھی پیچھے نہیں رہی۔ نگران حکومت بھی اگست میں سول ایوارڈ کا اعلان کرنا بھول گئی۔ ادھر تحریک انصاف ابھی ”نوازنے“ میں کنجوسی دکھا رہی ہے اپنے لئے ”نرم گوشہ“ رکھنے والے اہل قلم اور علوم و فنون کی شخصیات کو فی الوقت اہمیت نہیں دے رہی، پھر بھی جو ایوارڈ آناً فاناً تقسیم کیے گئے ہیں ان میں عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی، سجاد علی، اداکارہ ریما، بابرہ شریف، شبیر جان، افتخار ٹھاکر اور کچھ دیگر ایوارڈ یافتگان شامل ہیں اس فہرست میں ادیبوں، شاعروں کو شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے سول ایوارڈ پر ہرشعبے میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کا حق ہے اس کے لئے باقاعدہ ایسی کمیٹی ہو جو ہر شعبے سے ممبران پر مشتمل ہو، صرف آرٹس کونسلوں یا بعض علمی ادبی ثقافتی اداروں سے ارسال کی گئی فہرست کو حتمی نہ سمجھا جائے۔
ابھی کچھ روز قبل شیخوپورہ سے ایک شاعر نذرالحسن نذر سے ملاقات ہوئی، تو ہم ان کی خدمات اور کارکردگی پر حیران رہ گئے، نذرالحسن کئی کتب کے مصنف ہیں، یہی نہیں وہ فلاحی کاموں میں اپنی پہچان رکھتے ہیں، ملک معراج خالد، حنیف رامے جیسی شخصیات نے ان کی عوامی خدمات کو لائق تحسین قرار دیا، نذرالحسن نذر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ خدمت خلق میں بسر کر دیا، خود کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، کوئی کاروبار حیات نہیں بچے ٹیوشن پڑھا کر کچن چلاتے ہیں ہم حیران ہوئے کہ نذرالحسن نذر نے عوام کے لئے فری ڈسپنسری فری ایمبو لینس سے لے کر لاوارث لاشوں کی تدفین تک کرتے رہے اور بغیر کسی صلے کے گمشدہ بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے میں مصروف رہے مگر اسی دوران ان کے اپنے بچے ”رُل“ گئے، معاشرے میں فلاح، امن اور تعلیم کا شعور بیدار کرنے والے اس شاعر نے اپنی کتابوں کے ذریعے بھی نئی نسل کی تربیت و تہذیب کی کوشش کی میں سمجھتا ہوں، ہمارے اداروں کو ایسے بے لوث اور اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے فنکاروں لکھاریوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے، اکادمی ادبیات پاکستان اہل قلم کے لئے وظائف دیتی ہے ، انہیں خصوصی امداد سے بھی نوازتی ہے ۔ کیا ہی اچھا نذرالحسن جیسے ادیب شاعر اور عوامی خدمت میں زندگی بسر کرنے والے بزرگ کی خدمات کو بھی اعلیٰ سطح پر سراہا جائے، انہیں بھی ایوارڈ سے نوازا جائے، ان کی زندگی آسان بنانے کے علاوہ ان کے سماجی خدمات میں تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے، وہ شیخوپورہ میں ایمبولینس فری ڈسپنسری چلاتے تھے ضلعی سطح پر انہیں باقاعدہ دفتر بنا کر دیا گیا مگر بعد میں بلدیہ کے اس سارے فلاحی منصوبے کو پارک میں تبدیل کر دیا گیا ایسے فلاحی اداروں کو ختم نہیں ہونا چاہئے، اس طرح کے افراد کے لئے تو تحریک انصاف بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، اللہ کرے، یہ ادارے پایہ تکمیل کو پہنچ پائیں، بات ایوارڈ سے شروع ہوئی، ایوارڈ کی ریوڑیاں صرف اپنوں میں مت بانٹیں، کچھ مستحق اور واقعتاً کارکردگی دکھانے والوں کو بھی دیں تاکہ ان سول ایوارڈز کی توقیر اور بھرم قائم رہے، انور جمال کا شعر یاد آ رہا ہے :
اے قاسمِ اشیا تری تقسیم عجب ہے
دستار انہیں دی ہے جو سر ہی نہیں رکھتے
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ