کسی بھی دور یا خطےکی انسانی زندگی کے روزمرہ معمول سے تھوڑا ہٹ کر زندگی گزارنے والے شخص کو اکثر ابنارمل کھسکا ہوا مریض یا پاگل کہاجاتا ہے ۔نارمل اسے سمجھا جاتا ہے جو اس معاشرے کے معمول سے ہٹ کر کچھ نہ کرے اور سٹیٹس کو ( status qou)کو دل و جاں سے قبول کرلے چاہیے بظاہر اس کے خلاف شوروغوغا کرتا رہے ۔۔۔ (ایسے معاشروں کی اکثر سیاسی اور مذہبی وثقافتی تنظیمیں اور شخصیتیں یہی کچھ کرکے اپنا وجود منواتی اور باقی رکھتی ہیں کیونکہ جابرسلطان کے سامنے اس کی اجازت سے کلمہ ء حق کہنا کافی خطروں سے بچا لیتا ہے) ۔ اس حوالے سے اگر فرانسیسی مفکر مشل فوکو کے انداز فکر اور فلسفہ کو سامنےرکھیں تو اس کے مطابق یہ دراصل طاقت ور لوگ اور مراکز ہیں جو نارمل یا ابنارمل قول و فعل کے معیار بناتے اور رائج کرتے ہیں پھر ان معیارات سے انحراف کرنےوالوں کو سماج سے بےدخل کرنے کے انداز اور طریقے بھی وضع کئے جاتے ہیں ۔۔۔ فوکو نے معاشرے میں پاگل پن جرم وسزا اور جنس و جنسیت وغیرہ کے معیارات اور ان موضوعات و تصورات کے بارے میں کلام اور طرزکلام کے تعین کو تاریخی اور فلسفیانہ تناظر میں سمجھنے کی قابل قدر کوششیں کیں جن سے پس نوآبادیاتی اور طاقتور ظالمانہ نظام کے تخلیق کردہ انداز کلام /ڈسکورس کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔
مشل فوکو نے تین جلدوں میں جنس و جنسیت کی تاریخ بھی لکھی ہے اور اس میں جنس اور جنسیت کے بارے میں معاشرتی طور پر مباح اور ممنوعات کے تعین میں فرد اور اجتماع کی کشاکش کا تجزیہ کیا ہے ۔ طاقت اور علم کے باہمی رشتے اور حاکمیت میں ان کے استتعمال کے بارے مین فوکو کے افکار سےنامور فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید نے مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے معاملات کو خاص طور پر اور پس نوآبادیاتی تیسری دنیا کی سیاست و طرز سیاست معاشرت اور ادب وثقافت کو عام طور پر سمجھا ہے اور خاص انداز کی نظریہ سازی بھی کی ہے ۔
پاکستان جیسے طاقت پرست معاشرے میں بھی اس انداز سے سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کہ یہاں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی ثقافتی و سماجی مذہبی ونظریاتی اور سیاسی اقدار اور ضروریات نے خوف ودہشت اور حرص و ہوس کا ہنگامہ سا برپا کررکھا ہے۔ اس سب کچھ کےبارے میں تھوڑا غور کریں تو ایک ماہرانہ استحصالی سکیم اور طریقہ کار دیکھا جاسکتا ہے لیکن میرا ارادہ یہاں کوئی سازشی تھیوری دینے کا ہرگز نہیں بلکہ عزیزی ذوالفقارعلی بھٹو جونیئر کی خود اپنے بارے میں جاری کردہ ایک وڈیو کے حوالے سے کچھ کہنا ہے جو عام اور خاص سماجی میڈیا کا اہم موضوع بنی ہوئی ہے ۔ لگتا ہے جونئر بھٹو کا مقصد بھی یہی تھا ۔۔۔ ایک انتہائی جذباتی کالم محترمہ نور الہدا شاہ نے لکھ ڈالا جو سوشل میڈیا میں بیحد گردش کررہا ہے اگرچہ میری سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہیں لیکن مقصد ان کا بھی شاید پورا ہوا (ہمارے ہاں ضروری نہیں کہ مقصد واضح بھی ہو ) جونئر بھٹو کجھ عرصے سے رائج مغرب کی ایک فیشن ایبل ذوجنسیت تھیوری(Queer Theory) کا سہارا لے کر بات کر رہے ہیں .. یہ نظریہ کوئی تازہ بتازہ چیز بھی نہیں کہ جسے اس نوجوان نے دریافت کرلیا اور سب کو چونکا دیا بلکہ یہ نظریہ 1990 کے عشرے میں مشل فوکو کی فکر کے زیر اثر پروان چڑھا ۔ اس سے قبل لزبیئن. (Lesbian ) اور گے (gay) وغیرہ کےمتعلقہ کئی نظریات موجود تھے جو مرد اور عورت کے روایتی متعین و مستحکم صنفی اور جنسی امتیاز کے تصورات واعتقادات کو زیر بحث لارہے تھے ۔ جونئر بھٹو کے تاحال مرغوب اس نظریے کے مطابق عورت اور مرد کی تقسیم حیاتیاتی ہے لیکن اسے سماجی بنا کر مردانہ حاکمیت کا ایک استحصالی نظام بنا لیا گیا جو انسانی طور پر غلط اور ظالمانہ ہے ۔ جذبات و تصورات کی مروجہ صنفی تقسیم بھی انسانی نفسات کے تناظر میں بے بنیاد اور بلاجواز ہے خاص طور پر جنس جنسیت اور جنسی تعلقات کا معاملہ اتناسادہ ہرگز نہیں جتنا روایتی مردانہ سماج میں قرار دیا جاتا ہے ۔ اس نظریے کے لوگ کہتے ہیں کہ طےشدہ اورمتعین جنسی تصور اور ترجیحات سبھی انسانوں کے طزاحساس و تصورزیست اور عمل سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور نہ ہو سکتیں ہیں اس لئے ان پر نئے انداز سےسوچنے اور کلام/ڈسکورس کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ لوگ انسان کی انفرادی و گروہی شناخت کے سیال پن کی بات کرتے ہیں کیونکہ نرمی لطافت نزاکت اور اطاعت کی صفات مرد میں بھی وافر ہوتی ہیں اور عورت بھی مرد کے ساتھ وابستہ صفات جیسے جرات وہمت لیڈرشپ وغیرہ سے معمور ہوتی ہے اسلئے اس غیرفطری روایتی صنفی ور جنسی سماجی تقسیم کا کوئی جواز نہیں ۔ اس نظریے سے وابستہ افراد محض اپنی بعض جنسی ترجیحات اور بعض طرزہائے عمل کے برملا اظہار کے باعث متنازعہ بن جاتے ہیں ۔۔ یہی جونئر بھٹو کے ساتھ بھی ہو رہا ہے ۔۔۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک اہم سیاسی خانوادے کےاس نوجوان کی حمایت کرنے والے اس کے اظہار کردہ نطریے کے بارے میں کچھ پڑھےاور سمجھے بغیر ہی بے طرح جذباتی ہورہے ہیں اور اس کے نقاد تو خیر مروجہ سماجی وسیاس اقدار اور نظام کے رکھوالے بنیں گےہی اور ان کا طرز کلام بھی وہی ہو گا جس کے وہ تربیت یافتہ وتابعدار ہیں ۔
ہمارے روایتی سماج میں کہ جو اب زوال و انتشار کی حدوں پر ہے بہت کچھ ٹھیک نہیں ہے اور جو کچھ ٹھیک ہے اس کے رکھوالے خود اپنے ہی قول و فعل سے اس کی نفی میں لگے ہوئے ہیں اس لئے جونئر بھٹو یا کسی اور کو یہ الزام اپنے سر لینے کی ضرورت ہی نہیں ۔۔۔
اب جونئر بھٹو کی وڈیو کی طرف لوٹتے ہیں جس میں اس نے یچڑوں کی طرح رقص کرکے زنخوں کی طرح بول کر اور عورتوں کی طرح سلائی کڑھائی کر کے صنفی امتیاز کی روایتی تقسیم اور حد بندیوں کو گڈمڈ کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ اگر اپنی ہی معاشرت کا غیرجانبدارانہ اور غیر جذباتی جائزہ لیں تو ایسے کرداروں کی کمی نہیں جو خود ہمارے سماج میں تھوڑی ہچرمچر کےساتھ سماجی طور پر بہ آسانی قبول کر لئے جاتے ہیں ۔۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مختلف مرد پیشہ وروں میں ان کے کام کی بنا پر نسائی سی نزاکت عام ہے اور یہی معاملہ کئی پیشوں سی وابستہ عورتوں کا بھی ہے جن میں کجھ سختی اور کرختگی اور روایت مردانہ انداز کی آزادی اور فرینک بیس دیکھی جاتی ہے لیکن ان میں کسی بات کو غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا ۔۔۔ پاکستان جیسے معاشروں میں یہ بھی نظرانداز نہین کرنا چاہئے کہ یہاں اسی معاشرے میں عام اور نچلے طبقے کے مردوں کی محرومیاں اس جگہ کی عورتوں کی محرومیوں سے کسی طور کم نہیں ہیں ۔ متوسط بالائی متوسط اور اونچے طبقوں کی خواتین ان زمین افتادہ مردوں سے کتنی زیادہ مراعات سے لطف اٹھاتی ہیں اس کو ہماری نام نہاد سول سوسائٹی کی متحرک خواتین کبھی مان کر ہی نہیں دیں گی ۔ عدم مساوات کے ایک استحصال گزیدہ نظام میں محض صنفی انصاف کی بات کرنا کس قدر بار آور ہو سکتا ہے؟ تو جونئر بھٹو مغرب کےایک فیشن ایبل نظریے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نیم قبائیلی نیم جاگیردارانہ اور نیم صنعتی طبقاتی سماج کا خود اپنے دادا ذوالفقار علی بھٹو کے انداز میں تجزیہ کریں گے تو شاید ان کے پراجیکٹ کا انداز اور خود ان کا طرز عمل اور طرزکلام/ڈسکورس بھی بدل جائے جو بلاشبہ سینئر بھٹو صاحب سے مختلف ہوگا کیوں کہ اب بین الاقوامی سیاسی و سماجی منظرنامے بھی بدل چکے ہیں اور ان میں طاقتوری اور زور آزمائی کے طریقوں اور مراکز میں بھی بہت بنیادی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اس لئے سرمایہ دارانہ نظام کے تحکمانہ بیانیہ کے خلاف بھٹو دور کے سویت یونین کی طرف سے آنے والے رد بیانیہ کی بےدخلی کے بعد ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ایک نظریہ ہی ختم ہو گیا۔ مشرق کا یہ نظریہ اور ڈسکورس مغرب کیلئے کوئی نیک شگون نہیں سمجھا جارہا ۔ شمالی کوریا کو منہدم کرنے کے اعلانات بلاوجہ تو نہیں اور ایک عرصے میں اس چھوٹے سے ملک کی بقا محض ایک اشارہ ہی تو ہے ۔ چین ویتنام کمبوڈیا وغیرہ اس نظریے سے وابستگی سے ابھی منحرف نہیں ہوئے ۔ خود وطن عزیز میں بھی بھٹوازم ہو یا خدائی خدمتگاری اور سوشل ڈیموکریسی سب کی بقا کسی نہ کسی طور اسی نظریے ہی سے وابستہ ہے ۔۔ اس لئے خود اپنی وراثت سے منحرف نوجوان کی دل شکستگی اگرچہ بےبنیاد تو نہیں لیکن اس پر قابو پانے کے انداز کچھ اور ہوں گے ۔
فیس بک کمینٹ