میں نے پچھلی تحریر میں نشاندہی کی تھی کہ ہمسایہ ملک افغانستان، کے پی کے اور بلوچستان سے سرطان کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد علاج کے لیے لاہور اور کراچی کا رخ کرتی ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان کے مسائل اپنی جگہ گمبھیر ہیں لیکن افغانستان کے مریضوں کا حال ان سب سے ابتر ہے۔افغانستان سے علاج کے لیے آئے ہوئے افراد کے لیے پاکستان کے ویزے کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ویزا حاصل کرنے میں بعض اوقات اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ سرطان کی اسٹیج کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ خوش قسمتی سے ویزا حاصل ہوجائے تو ایک ماہ کے اندر اس کی تجدید کروانا ہوتی ہے۔
عموماً ایک کینسر کے مریض کے ساتھ اس کے ایک ہی خدمت گار کو ویزا دیا جاتا ہے۔ یہ خدمت گار مریض کا بھائی، باپ یا کوئی قریبی بالغ مرد رشتہ دار ہوتا ہے۔
کینسر کا علاج نمونیا یا ٹائیفائیڈ کی طرح قلیل مدتی نہیں ہوتا۔ عام طور پر اس کے علاج کا دورانیہ کم سے کم چار ماہ سے لے کر تین سال تک ہوتا ہے۔ علاج کے دوران ایسے مراحل بھی آتے ہیں جب مریض کو سخت ترین کیمو تھراپی (سرطان کے علاج کی ادویات) یا شعاعیں دی جاتی ہیں۔ یہ صورتحال 4 سے 8 ماہ تک قائم رہ سکتی ہے۔ اس بیچ مریض کا خدمت گزار اپنے مریض کی دیکھ بھال چھوڑ کر محض ویزے کی تجدید کے لیے سرحد پر موجود دفتر نہیں جا پاتا۔ مجبوراً وہ اور اس کا مریض ختم شدہ معیاد والے ویزے کے ساتھ پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مریض کی زندگی بچانے کی خاطر ان کا معالج انہیں کسی اور خدمت گزار کا انتظام کرنے یا خود بہر صورت مریض کے ساتھ رہنے کی سخت ہدایت کرتا ہے۔
بعض اوقات افغانستان کے اس علاقے میں جہاں سے مریض تعلق رکھتا ہے، مختلف عسکری گروہوں کے مابین خانہ جنگی چل رہی ہوتی ہے۔ان حالات میں وہاں کے مقامی لوگ گھروں میں بند ہو جاتے ہیں اور ان کا پاکستان میں زیر علاج اپنے مریض سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ اس وجہ سے کوئی بھی رشتہ دار پاکستان میں تھکے ہارے بنا ویزے کے دربدر خدمت گار کے متبادل کے طور پر یہاں نہیں پہنچ پاتا۔اس دوران پاکستان میں موجود بنا ویزے کا یہ خدمت گار پاکستانی پولیس اور ایجنسیوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں پٹھانوں اور افغانوں کو ہمیشہ مشکوک نظروں اور حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ جہاں سے بھی گزرتے ہیں، ان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔ پولیس اور آرمی کے لوگ ختم شدہ معیاد کے ویزے دیکھ کر ان معصوم افراد کو شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ لوگ ان کی ساری نقدی لے کر ویزے کی جلد از جلد تجدید کی ہدایت کے ساتھ پاسپورٹ واپس کرتے ہیں۔ویزے کی معیاد ختم ہونے کی وجہ سے یہ مجبور افراد موبائل فون کی سم تک کے حصول سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یوں اسپتال کی طرف سے فون کے ذریعے اہم معلومات کی ان تک رسائی بھی ناممکن ہو جاتی ہے۔دنیا کا ہر مہنگا اور سستا علاج کسی بھی قومیت، شہریت، ذات پات، مذہب اور رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اس مضمون کا مقصد حکام بالا تک یہ مطالبہ پہنچانا ہے کہ افغانی سرطان یا دوسرے امراض کے مریضوں کے لیے ویزے کا حصول آسان بنایا جائے، انہیں طویل مدتی جیسے کم سے کم ایک سال کی معیاد کا ویزا دیا جائے اور پولیس اور فوج کے عملے کو ہدایت کی جائے کہ وہ پشتون اور افغان مریضوں اور ان کے لواحقین کی مجبوریوں کو سمجھیں اور اپنے ان مہمانوں کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔ نیز ان غریبوں کو ان کی نقدی سے بھی محروم نہ کریں۔
فیس بک کمینٹ