جان کی امان نہ بھی پاﺅں تو عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رونے اور پسنے والی عوام کو اگر جلنے اور بلکنے کا حق دیا ہے تو انہیں کھیلنے ، مسکرانے اور کھلی فضا میں سانس لینے کی خیرات بھی دے دو۔بانی پاکستان نے کھیل کے میدانوں کو آباد رکھنے کی بات کی کہ ”توانا جسم ہی تندرست دماغ رکھتا ہے“ اخبارات میں فوجی پڑاﺅ کبیروالا جو وہاں کے شہریوں کے لئے کبھی ایک کھیل کا میدان ہوتا تھا کی ننانوے سالہ لیز کا اشتہار دیکھا تو ماضی کے ”سنگ“ یاد آگئے جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے یا چڑھا دیے گئے۔ سنگ اسی فوجی پڑاﺅ میں سجتا تھا تو ضلع بھر کے عوام سارا دن جشنِ بہاراں مناتے تھے ۔
دہشت گردی کی لہر نے پالیسی سازوں کے چہروں سے جعلی میک اپ کی تہہ اتار پھینکی کہ وہ کس قدر غریب لوگوں کی خوشیوں کے دشمن ہیں جنہوں نے دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کےلئے اور انہیں نوجوان فورس فراہم کرنے کے لئے تمام تفریحی وسائل ختم کرڈالے ۔ میلوں اور تفریحی پروگراموں پر پابندی دراصل دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے تھی یا پھر مجھے ایسے لگتا ہے کہ دہشت گردی اور ایسی پابندیوں کا ماسٹر مائینڈ ایک جیسا ہے یا ایک ہے۔
دہشت گردی صرف بم یا بندوق سے جسموں کے بخیے ادھیڑ دینے کا نام نہیں بلکہ زندہ انسانوں سے جینے کا حق چھین لینا بھی تو دہشت گردی ہے، چلتے پھرتے قبرستان بھی تو دہشت کی علامت ہوا کرتے ہیں۔
یہ کون لوگ ہیں جو جھیلوں ، دریاﺅں ، آبشاروں اور جھرنوں کو نیلام کرنے کے بعد میدانوں کو بھی اپنی کاروباری کمین گاہیں بنانا چاہتے ہیں ۔ اگر کسی کو نوازنا ہی مقصود ہے تو پھر ننانوے سالہ نام نہاد لیز کے ڈرامے کی ضرورت کیا ہے؟ آپ کچھ بھی نیلام کرلو زندہ لاشوں کے قبرستان سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم اب اس قابل نہیں رہے ۔
شہیدضرغام عباس کے نام سے منسوب پارک بنانے کا وعدہ اور پھر شہیدوں سے وعدہ خلافی ؟ کبیر والا کے عوام ہی نہیں دیکھنے اور سننے والے بھی حیران ہیں کہ عوام کے کھیلنے اور کھلی فضا میں سانس لینے سے زیادہ کسی کے مالی ہاتھ مضبوط کرنے کو ترجیح کس تھنک ٹینک کی تھیوری ہے ۔ ننانوے سال کے لئے بھاری قیمت ادا کرنے والا خوشیوں کا سوداگر بھی تو ایک زندہ قبر ہوگا جو بچوں کے کھیلنے اور آسودہ حال ہونے سے زیادہ اپنا مالی مفاد مدنظر رکھتا ہے۔ وزارتِ دفاع اور معزز ادارے ، ان کے بااختیار افسران دست بستہ ، جاں بلب کبیر والا کی عوام پر احسان کریں تو ان کی نسلیں آپ کی نسلوں کی ممنون رہیں گی بالکل ایسے ہی جیسے آپ کی نسلیں عوام کی نسلوں سے مسلسل برتر چلی آرہی ہیں۔ سانس لینے کا حق ، مسکرانے کا حق ، کھیلنے کا حق اور کچھ کچھ تندرست رہنے کا حق اتنا بڑا مطالبہ نہیں کہ آپ رد کردیں۔ آپ فوجی پڑاﺅ ہماری نسلوں پر احسان کے طور پر کاسہ گدائی میں ڈال دیں اور لیز پر دینے کا فیصلہ واپس لیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی :
زندگی کے جتنے بھی دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا ، حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا، اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹاکر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے ، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی آزادی تو میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لئے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا ، تذکرہ بھی جرم ہے
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست
اے خداوندانِ ایوان با عقائد
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے
فیس بک کمینٹ