ایک کالونی کی نئی قیادت نے جب فیصلہ کیا کہ شالیمار کالونی کا بورڈ لگایا جائے تو اس کی مرکزی سڑک کو پروفیسرز ایونیوکہا جائے اور اُس کے کوچوں کا نام یہاں کے ناموروں کے نام پر عاصی کرنالی سٹریٹ، سید صفدر امام سٹریٹ، عبدالرﺅف سٹریٹ ،خاکوانی سٹریٹ، تھہیم سٹریٹ اورنصرت مند خان سٹریٹ رکھا جائے تو پھر گزشتہ تین سے چار عشروں کی یادوں کا ایک ورق کھل گیا تب اس کالونی میں چھ سے سات پروفیسر رہتے تھے جن میں سید صفدر امام، عاصی کرنالی، شمیم حیدر ترمذی، قاضی محمد امیر، نذیر احمد چیمہ، محمد نواز قاسمی اور نصرت مند خان تھے خود میں نے، رﺅف شیخ ، خالد سعید، اعجاز رسول چشتی اور عزیز بلوچ نے بعد میں اِنہی استادوں کی محبت میں اپنے گھر اس کالونی میں بنوائے، البتہ سیدخالد ناصر پہلے سے اس سڑک پر رہتے تھے جہاں عزیز بلوچ کا گھر ہے۔ اسی کالونی میں ایک خوش مزاج صحافی ایثار راعی اور ایک ایماندار تاجرسید محمد امین بھی رہتے تھے مگر باہمی اتفاق، رابطہ اور ایثار کی بدولت یہ کالونی پُر رونق ہوتی گئی اور یوں میں نے بھی 1986ءمیں اپنے مرحوم دوست نعیم چوہدری کی سرگرم نگرانی میں یہاں گھر بنوا لیا اور اِتفاق سے میرا گھر ایک گلی کے درمیانی راستے کو چھوڑ کر نصرت مند خان کی ہمسائیگی میں تھا وہ زوالوجی کے اُستاد تھے اہل زبان تھے مگر اُن کی شہرت فن کے ناقد کی تھی۔ ایک آدھ مرتبہ میں اُن کے گھر میں بھی گیا تو انہوں نے اپنے آتش دان کی ڈیزائنگ کھنگر اینٹوں سے (جو آوے میں زیادہ آنچ سے کالی ہوجاتی ہیں ) اس طرح کی تھی کہ وہ سچ مُچ کسی آرٹسٹ کا ڈرائنگ روم لگتا تھا ۔ میرے بزرگ دوست مرزا ابنِ حنیف سے خان صاحب کی رشتہ داری تھی اور یہ گھرانہ کالونی کا شاید سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب تھا، نا صرف نصرت مند خان بلکہ ان کے بھائیوں کے بھی اسی طرح کے منفرد نام تھے جو کسی مہذب پٹھان بستی سے نقل مکانی کرنے والوں کی یادگار محسوس ہوتے تھے جیسے صولت مند خان، شجاعت مند خان وغیرہ ۔ مگر مبارک مجوکہ مرحوم کا سنایا ہوا ایک لطیفہ میری یاداشت میں پیوست ہے کہ مظفرگڑھ کالج کے ایک سرائیکی لیکچرار نے ان سب بھائیوں کے نام سُن کر شجاعت مند خان سے پوچھا تھا آپ بھائیوں میں سے کوئی غیرت مند بھی ہے؟ پھر ایک وقت آیا جب اس کالونی میں سے سیدصفدر اِمام، عاصی کرنالی، قاضی محمد امیر اور عبدالرﺅ ف شیخ دوسرے جہان کو رخصت ہوئے۔ محمدنواز قاسمی لاہور منتقل ہوگئے ، نذیر احمدچیمہ اور نصرت مند خان بھی اپنے بچوں کے پاس امریکہ اور کینیڈا کو سدھارے۔ کالونی میں سب سے خوبصورت باغیچہ سید محمد امین شاہ کی بیگم کی توجہ کے طفیل تھا وہ مفلوج ہوئیں تو یہ باغیچہ بھی اُجڑ گیا اور سب سے وضع دار رکن سید شمیم حیدر ترمذی گوشہ نشین ہوگئے ۔یوں کالونی کی شناخت ایک نودولتیا چیختا چنگھاڑتا ٹویوٹا شوروم بن گیا جس کے قریب ہی اب میٹرو کا شور شرابا ہے، ملتان مال کی آمد آمد ہے، ایسے میں اس کالونی کو باوقار اور پُر کشش بنانے والے ابتدائی آباد کاربے تحاشا یاد آتے ہیں۔
نوسٹیلجا کے اِنہی ایام میں شعبہ اُردو زکریا یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالب علم محمد اظہر میرے پاس نصرت مند خان کے ریڈیائی ڈراموں کے مسودے اُٹھا کر لائے تو اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ ملتان کے اوراقِ پارینہ کی جمع بندی کا مجھ ایسا آرزو مند کس قدر خوش ہوا کیونکہ ہمارے ہاں اب ریڈیو بھی ایک طرح سے قصہ پارینہ ہورہا ہے حالانکہ اسی ملتان ریڈیو سٹیشن نے اس شہر کے بہترین اہل قلم کو موقع دیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار اس طرح کریں کہ اُن کی معاشی حالت بھی سُدھر سکے اور نئی نسل کی تربیت بھی ہوسکے۔ مجھے خود ریڈیو کےلئے اُردو اور سرائیکی میں ڈرامے لکھنے کا موقع ملا بلکہ ایک وقت تو ایسا تھا کہ ہم سب اپنے اپنے کالجوں سے کلاسیں لے کر ریڈیو سٹیشن پہنچ جاتے تھے تو وہاں جابر علی سید ، عاصی کرنالی ، اسلم انصاری ، عتیق فکری ، مہر عبدالحق ، حسن رضا گردیزی ، ارشد ملتانی پہلے سے براجمان ہوتے تھے تب ملک عزیز الرحمن ، فخر بلوچ ، مدثر ہ حسین ، معین زبیری اور کبیر سید بہت سارے پروڈیوسروں کے ساتھ موجود ہوتے تھے ۔ یہ وہ دور تھا جب مجھے اور اصغر ندیم سید کو یہ زعم تھا کہ سوائے تلاوت یا نعت کے ہم ہر ریڈیو پروگرام میں شریک ہوسکتے ہیں۔ایک مرتبہ جابر علی سید نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ریڈیو پروگراموں میں عاصی کرنالی اور مجھ میں نیک ٹو نیک (Neck to Neck)ریس ہے پھر انہو ںنے اپنے قائم کردہ استعارے سے لطف لیتے ہوئے کہا کبھی کبھار ”میرے نتھنے عاصی صاحب کی دُم کو چھو لیتے ہیں “۔ اسی دور میں جشن تمثیل بھی ہوتا تھا اور کم وبیش ہر ہفتے ایک اُردو کا ڈرامہ بھی پیش کیاجاتا تھا ۔ ظہور نظر، عرش صدیقی ، اسلم انصاری ، منور شہزاداور نصرت مند خان سینئر لکھنے والوں میں تھے۔
اب جبکہ نصرت مند خان کے 16ریڈیائی ڈرامے اظہر علی نے مرتب کئے ہیں تو میں نے اظہر سے سوال کیا کہ یہ مسودے کہاں سے حاصل کئے ہیں کہ ریڈیو پاکستان ملتان تو ایک عرصے سے یہ آخری اعلان کرچکا ہے کہ نہ اب یہ مسودے دستیاب ہیں نہ اُن کی ریکارڈنگ، اس نقصان کےلئے پروڈیوسرصاحبان ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔ اظہر نے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں پروفیسر نصرت مند خان کی بیٹی ڈاکٹر صبوحی نے بہت مدد کی ہے انہوں نے ہی بیشتر مسودے فراہم کئے ہیں اور وہی آرزو مند ہیں کہ انہیں یکجا کرکے شائع کیاجائے۔ ہماری عُمر میں جوش وخروش یا اُبال وقتی ہوتا ہے اگرچہ دوسری مصروفیات میں وقفے وقفے سے ایک خلش سی رہتی ہے سو مجھے یاد ہے کہ جب میں نے پہلی دفعہ یہ مسودہ دیکھا تھا تو پروفیسر نصرت مند خان کا فون نمبر لے کر امریکہ میں اُن سے رابطہ بھی کیا تھا اور اُن سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے فن کے بارے میں چند صفحے لکھیں اور اپنے فنکارانہ تخلیل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کتاب کا ٹائٹل بھی بنائیں ۔اس کے بعد یاد دہانی کی نوبت آئی اور نہ خان صاحب کی طرف سے کوئی رابطے کی کوشش ہوئی، تاہم اظہر نے اب اپنی متوقع شادی (وصال ) سے پہلے یاد دلایا ہے کہ نصرت مند خان کے بارے میں ہماری پہلی بات کو بھی 15ماہ گزر چکے ہیں اس لئے اس کی اشاعت کا کوئی اہتمام ہونا چاہیے اور اس مجموعے کا کوئی نام بھی تجویز کرلینا چاہیے ۔میں نے فہرست پر نظر ڈالی تو ایک ڈرامے کا نام تھا ”گمشدہ لوگ “ چنانچہ اس نام کے ساتھ ہی مجھے بہت سے گمشدہ لوگ یاد آئے جن کی یاد میں ہم اپنی اس کالونی کی گلیاں منسوب کرتے پھرتے ہیں ۔ سو اس سے پہلے کہ ہم جیسے لوگ بھی گمشدہ لوگ ہوجائیں یا یہ اوراق پریشاں ہوجائیں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صبوحی اور پیلوں پبلیکشنز اپنے اشتراک سے اسے کتابی صورت میں محفوظ کرلیں۔
(پروفیسر نصرت مند خان کے ریڈیائی ڈراموں کے مجموعے کا پیش لفظ )