شاہان مغلیہ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو بزور تلوار ہندوستان میں پھیلایا اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھا ئے کہ اگر دودمان مغلیہ ہندوستان کا سرکاری مذہب اسلام کر دیتے تو آج کسی نریندر مودی اور ٹھاکرے کا وجود ہی نہ ہوتا جیسا مسلم اندلس میں ہوا کہ آٹھ سو برس حکومت کرنے کے با وجود آج مسلمان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا سلطنت مغلیہ کی طاقت و حشمت فرڈیننڈ سے تو بہت زیادہ تھی لیکن پاکستان میں بھارتی تقافت کا طبلہ بجانے والوں کو کون سمجھائے، آج روزنامہ جنگ کی شہ سرخی بھارت کی ازلی دشمنی کا ثبوت ہے آزاد کشمیر میں سکول وین پر نام نہاد بہادر بھارتی فوج (جو سنی دیول کی فلموں میں ایکشن تک محدود ہے) کی شرمناک اور بزدلانہ کاروائی میں معصوم بچے زخمی ہو گئے ایک معروف برطانوی اخبار سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک صحافی دوست مرتضٰی شبلی جو سری نگر سے ہیں اور آج کل لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں ان سے ملاقاتوں میں کشمیریوں کی پاکستان سے بےپناہ محبت کا احساس ہوا کسی اورکالم میں اس کی تفصیل بیان کروں گا
نام نہاد سیکولر ریاست بھارت میں تقسیم ہند سے قبل متحدہ ہندوستان میں بھی اور قیام پاکستان کے بعد سے اب تک موجودہ بھارت میں بھی جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جو حشر ہوا ہے، اس کی روشنی میں بھارتی جمہوریہ کو جمہوریہ کے بجائے جنونی ہندو ریاست قرار دیا جانا چاہیے جس میں غیر ہندو اقلیتوں ہی نہیں، نچلی ذات کے ہندوؤں کو بھی دلت اور شودر کا نام دے کر دیگر مذاہب اور انسانیت کی توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ مسلمان دشمنی میں تو جنونی ہندو ہمیشہ بازی لے جانے کے چکر میں رہتے ہیں، متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں پر کاروبار، روزگار، تعلیم اور تجارت کے دروازے بند کر کے انہیں غربت، بدحالی اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیلا جاتا رہا۔ انہیں سودخوری پر مبنی ساہوکارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑ کر نڈھال اور بے حال کیا گیا اور ان سے مذہبی آزادی چھین کر انگریز کے ساتھ ساتھ ہندو کی غلامی میں دینے کی بھی مذموم سازشیں کی گئیں۔ گاؤ ماتا کے تنازع پر مسلمانوں کا قتل عام روزمرہ کا معمول بنا لیا گیا اور مسلمانوں کے ہر مذہبی تہوار کے موقع پر بھی ان کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔
ہندو کے اسی تعصب اور جنون نے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر اور اپنے لیے الگ خطہ ارضی کے حصول کی سوچ پیدا کی۔ ہندو مؤرخین اسی تناظر میں خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ دو قومی نظریہ مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھنے والے ہندو کی اپنی سوچ کی ہی پیداوار ہے۔
علامہ اقبال نے جنونی ہندو کے پیدا کردہ انہی حالات کی بنیاد پر 1930ء میں اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے الگ خطے کا تصور پیش کیا جو بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔ اقبال کے پیش کردہ تصور کی بنیاد پر ہی قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے الگ وطن کے لیے پُرامن جمہوری جدوجہد کی اور اپنے فہم و تدبر، دوراندیشی اور بہتر حکمت عملی کے تحت انگریز اور ہندو دونوں کو مات دی۔ متعصب اور جنونی ہندوؤں نے ہندتا کے تصور توسیع پسندی کے تحت قیام پاکستان کے بعد بھی ہندوستان میں آباد مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ شرف انسانیت سے گرا ہوا سلوک جاری رکھا۔ جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں بابری مسجد کی شہادت، احمد آباد میں مسلمانوں کی پوری آبادی کو جلانے والا المناک واقعہ، گودھرا ریلوے سٹیشن پر کھڑی ٹرین پر ہندوؤں کے بلوے میں مسلمانوں کا قتل عام اور پھر دیوانہ ریلوے سٹیشن پر ہریانہ میں بھارتی فوج کے کرنل پروہت کی تیار کردہ سازش کے تحت سمجھوتہ ایکسپریس کی مسلمان مسافروں والی بوگی کو پٹرول چھڑک کر مسافروں سمیت بھسم کرنے کی جنونی واردات متعصب ہندوؤں کے مسلم کش عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شیوسینا کے انتہاپسند ہندو ہی نہیں بی جے پی کے نام نہاد سیکولرازم کے پرچارک ہندو لیڈران بھی بھارت جانے والے ہمارے کھلاڑیوں، فنکاروں، دانشوروں اور اجمیر شریف جانے والے زائرین تک کو نہیں بخشتے اور ان کے خلاف ہذیان بکنا اور حملہ آور ہونا جنونی ہندوؤں کے معمولات میں شامل ہے حتیٰ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے اور کشمیریوں کے مؤقف کی تائید کرنے والے ہندوؤں کو بھی نہیں بخشتے شاہ رخ خان اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں سلمان اور عامر خان بھی اس لہر کا نشانہ بنے ہیں۔ بھارتی خاتون دانشور ارون دھتی رائے اور کشمیری حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق متعدد مواقع پر ہندو جنونیت کے ہتھے چڑھ چکے ہیں جبکہ اندراگاندھی کے پوتے ارون گاندھی تو اپنی انتخابی مہم کے دوران بھارتی مسلمانوں کو چن چن کر قتل کرنے کی سرعام دھمکیاں بھی دیتے اور اعلان کرتے رہے ہیں کہ بھارت میں آباد ہر مسلمان کو پاکستان کی جانب دھکیل دیا جائے گا۔
یہ ہندو ذہنیت دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تخلیق پاکستان کی سچائی کا ثبوت ہے یہ کھلی حقیقت ہے کہ جنونی ہندو کو اس پورے خطہ میں مسلمانوں کا وجود گوارا نہیں جبکہ قیام پاکستان کے بعد بھی مسلمانوں کے خلاف اس کا تعصب کم نہیں ہوا اس لیے کانگریسی ذہنیت کے حامل ہمارے جو نام نہاد دانشور اور لیڈر اپنے مخصوص مفادات کے تحت اس پروپیگنڈا میں مصروف ہیں کہ قائداعظم نے پاکستان کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرکے غلطی کی تھی، وہ دانستہ طور پر اس حقیقت سے صرف نظر کر رہے ہیں کہ پاکستان قائم نہ ہوتا تو مسلمان انگریز کے جانے کے بعد ہندو کی غلامی میں جکڑے پہلے سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
فیس بک کمینٹ