آسیہ رانی کا تعلق ملتان سے ہے زمانہ طالب علمی سے ادب کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ زاویے کے نام سے دس برس قبل شائع ہوا ۔ تحقیق و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ آج ‘‘گردو پیش‘‘ میں ان کا پہلا کالم شائع کیا جا رہا (رضی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھرسُن رہاہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
بھولاہواتھادیرسے میں اپنے آپ کو
اب کے دسمبرپھراُداس ہے۔۔۔اس لمحۂ موجودمیں گزرازمانہ دھیرے دھیرے درِدل پردستک دے رہاہے۔خواہ کتناہی بھاری اورغم آلودکیوں نہ ہو۔۔۔ماضی ہمیشہ حسین لگتاہے۔گئے زمانوں کی چاپ سُریلی گھنٹیوں کی آوازسے کم مدھراورکومل نہیں ہوتی۔بعض اوقات توایساہوتاہے کہ ہم اپناآپ ماضی کی غلام گردشوں میںیوں بھول آتے ہیں کہ اپنی ہی بازیافت مشکل دکھائی دیتی ہے۔یادکے دریچوں کے پارہرمنظردل کشاومسحورکُن لگتاہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایساہی معاملہ ہے۔بچپن کاہرمنظرایک خوبصورت پینٹنگ کی مانندہے جس کاہررنگ آنکھوں کوبھلامعلوم ہوتاہے۔زمانے کی گردنے ماضی کے کینوس پربکھرے رنگوں کودھندلانے کی بھرپورکوشش کی ہے لیکن ۔۔
دل کے آئینے میں ہے تصویرِیار
جب ذراگردن جھکائی دیکھ لی
ماضی بعیدمیں کتابِ ہستی اپنے ورق اتنی آہستگی سے پلٹتی تھی کہ گزشتہ صفحے کالفظ لفظ ذہن پرنقش ہوجاتاتھا۔مگرماضی قریب وزمانہ حال کارنگ ڈھنگ ہی جداہے۔اب کتاب ہستی کے اوراق اتنی تیزی سے پلٹتے جاتے ہیں کہ پرانے حرف ولفظ توکیانئی تحریربھی اپنادیرپااثرذہن ودل پرنقش نہیں کرپاتی بلکہ بہت سے الفاظ توامتدادِ زمانہ کے ساتھ متروک قراردیئے جاچکے ہیں۔دریچۂ ماضی کے پاردیکھوں توبہت سے خوش کُن مناظردل کولبھاتے ہیں، سہیلیوں کے ساتھ پیدل سکُول جانا،ذوق وشوق سے پڑھنا اوردن میں کئی بارتختی لکھنا،تفریح کے اوقات میں اپنے ہم عمروں اورہم جولیوں کے ہمراگلی ڈنڈا،کوکلاچھپاکی،برف پانی اورپکڑن پکڑائی سے گلی کوآبادرکھنایاگھرکے آنگن میں لڈواورکیرم بورڈکی محفل سجانا۔گلی محلے کے درودیوارہمارے دیرینہ دوست اورہماری معصوم شرارتوں کے گواہ تھے۔مہینہ بھرپہلے سے ہی عیدکی خوشی میں نہال رہتے اورہرشب والدہ کے ہاتھ کے سِلے کپڑوں،نئے جوتوں اوربالی جھمکوں کونئے اشتیاق سے دیکھاکرتے۔ہمارابچپن الف لیلوی کہانیوں کی مانندہے جس میں کئی قصوں کے پیوندہیں یاپھرعمروعیارکی زنبیل ہے جس میں ہاتھ ڈالوتونئے زمانے کے ڈورے مون کی مانند ایک نیاگیجٹ ہاتھ آتاہے جوجادوبھری نئی اقلیم میں لے جاتاہے۔شہزادی اوردیوکی کہانیاں،ٹارزن کی واپسی کی داستانیں،عمران اورانسپکٹرجمشیدکے نت نئے کارنامے،جنوں بھوتوں کے فرضی قصے جن کوسنتے ہوئے محویت کایہ عالم کہ پلکیں جھپکنابھی گراں گزرے اوررِیل والے کیمرے سے تصویریں بنواناجن کے انتظارمیں کئی کئی دن گھلتے رہنا۔یہ سب بہت رومانس بھراہے۔شایدسبھی کابچپن ایساہی رومانوی ہوتاہے لی۔۔۔۔کچھ تو ہے جوکہیں کھوگیاہے۔ہمارے بچپن کی شوخیاں اورکھلکھلاہٹیں زمانے کاسیل رواں خس وخاشاک کی ماننداپنے ساتھ بہالے گیاہے۔سب کچھ قصہ پارینہ ہو گیاہے ۔۔۔۔ نہ جنوں رہا،نہ پری رہی۔آج کی نسل کے لیے یہ تمام قصے عجوبہ سے کم نہیں ہیں۔ایک خواب ہے جوچکناچورہوچکاہے۔ان خوابوں کی کرچیوں میں گئے زمانوں کاعکس دیکھیں توایک دل رُبامنظرکچھ یوں دکھائی دیتاہے ۔ دادی اماں کابڑاساٹی وی بہت بڑے سے برآمدے کی دیوارمیں پیوست ہے۔سہ پہرکاوقت،پی ٹی وی کامخصوص لوگو،پس منظرمیں دھیمے سُروں کی موسیقی غمازکہ نشریات شروع ہی ہواچاہتی ہیں ۔ہم سب بہن بھائی سکرین پرنظریں جمائے ساکت انتظارکی گھڑیاں ختم ہونے کے بے چینی سے منتظر۔۔۔۔صبح کی نشریات سے لے کرجوکہ 10بجے ختم ہوتی تھیں اورسہ پہرچار بجے دوبارہ شروع ہوتی تھی رات بارہ بجے تک، اس طلسم کدہ میں ہماری دلچسپی لمحہ بھرکے لیے بھی ختم نہ ہوتی تھی ۔پی ٹی وی ہمارے بچپن کابہترین دوست تھا۔اگریہ کہاجائے کہ میرے ہم عمروں کی ذہنی تربیت اورذوق کی تشکیل میں پی ٹی وی کاحصہ ناقابلِ فراموش ہے توبے جانہ ہوگا۔اس دورکی پروردہ نسل ایک خاص ادبی ولسانی شعوررکھتی ہے ۔اسی طرح موسیقی کاایک خاص ذوق بھی اس نسل کی شخصیت کاحصہ بنتاہے۔کلاسیکی،نیم کلاسیکی موسیقی اورپاپ میوزک کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ پی ٹی وی کی ہی عطاکردہ ہے ۔ان ہی دنوں پاکستان میں پاپ میوزک متعارف ہوااورزوہیب حسن ونازیہ حسن کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ایسے گلوکاروں کی ایک بڑی کھیپ پردۂ سکرین پردکھائی دی جوجدید موسیقی کے رسیاتھے۔اس نئی موسیقی نے ایک نئی طرزکی شاعری کوبھی جنم دیا۔موسیقی کے اس رجحا ن کے نوجوان دلداہ تھے اوربزرگ نالاں۔ایسے میں بانکے سجیلے،من موہنی شکلوں والے چندنوجوان گٹاراورکی بورڈبجاتے،جھومتے جھامتے واردہوئے ، وہ آئے،انہوں نے دیکھااورفتح کرلیا۔دل دل پاکستان کے سُریلے بول جنگل کی آگ کی طرح پھیلے اورہرپاکستانی کے دل کی دھڑکن بن گئے۔وائٹل سائنزکے نام سے شہرت پانے والایہ میوزیکل گروپ بہت عرصہ دنیائے موسیقی پرراج کرتارہااوربہت سے کومل اورمدھرگیتوں سے سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتا رہا ۔حوادثِ زمانہ نے اس گروپ کاشیرازہ توبکھیردیالیکن ایک دمکتاستارہ آسمانِ موسیقی کوجگمگاتارہا۔جنیدجمشیدکی رس بھر ی آواز،سحرانگیزموسیقی اورمیٹھے بولوں نے ہرپِیروجوا ں کو اپنااسیرکیے رکھا۔جنیدجمشیدکی فنی صلاحیتوں کی بدولت نئی وپرانی نسل کے درمیان ذوق موسیقی میں تفاوت دورہوا۔پاپ میوزک جوچیختے چنگھاڑتے سازوں اوربے تُکی شاعری کاملغوبہ بن کررہ گئی تھی،جنیدجمشیدنے اسے نیم کلاسیکی موسیقی کے دھیمے پن اورجدیدموسیقی کے نئے پن کاامتزاج بنادیا۔جدیدموسیقی دھیمے سُروں اورمیٹھے بولوں میں بدلی اورہردل کی آوازبن گئی۔جنیدجمشیدکاتعلق ایک پڑھے لکھے ،جدیدرحجان وسوچ کے حامل گھرانے سے تھاچنانچہ دنیائے موسیقی میں اس کی آمدنے سوچ کے اس قدیم بُت کوپاش پاش کردیاجس کے تحت موسیقی کوبطورشعبہ اختیارکرنامعیوب سمجھاجاتاتھا۔اب پڑھے لکھے گھرانوں کے نوجوان بے دھڑک اس میدان میں قدم رکھنے لگے۔جنیدجمشیدکی حیثیت اس کارواں سالار کی سی ہے جس کے نقشِ قدم پیچھے آنے والوں کونئی منزلوں کاپتہ دیتے ہیں۔ان کاساتھ دینے والے بہت سے نوجوان جواُن کے زیرِتربیت رہے بعد میں آسمانِ موسیقی کوتابناک بناتے رہے ۔ان میں فاخر،روحیل حیات اورسلمان احمدجیسے کئی نام ورگلوکارشامل ہیں۔جنیدجمشیدایک بھرپورعہدکانام ہے اور۔۔۔۔اب کے دسمبرپھراُداس ہے کہ یہ عہدہم سے رُخصت ہوا۔جنیدجمشیدکی اندوہ ناک موت ایک المیے سے کم نہیں۔ جنیدجمشیدکی کایاکلپ میرے لیے کبھی خوُش کن نہیں رہی۔میں نے حسین ووجیہہ ٹام کروزسے مشابہہ اس بانکے سجیلے نوجوان کوہمیشہ اپنے تصورمیں زندہ رکھاجس کے دل مو ہ لینے والے گیت ایک زمانے تک امن ومحبت کاپیغام پھیلاتے رہے۔جنیدجمشیدجاتے جاتے میرااورمیرے ہم عمروں کابچپن بھی اپنے ساتھ لے گئے۔وہ بچپن جوہرشخص کی متاعِ عزیزہوتاہے اوریہ چندلفظ اسی متاع کے کھوجانے کانوحہ ہیں۔
آؤکہ آج ختم ہوئی داستانِ عشق
اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
فیس بک کمینٹ