سنا تھا وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ کوئی مرے یا جیے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گھڑی کی سوئیاں بھی اپنی رفتار سے چلتی رہتی ہیں۔ کیلنڈر پر لکھے ماہ و سال بھی اپنے اپنے مقررہ وقت پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن جس گھر میں تم رہتے تھے وہاں سولہ دسمبر کے بعد سے وقت رک گیا ہے۔ وہاں گھڑی کی سوئیاں چلنا بھول گئی ہیں۔ غم اور اداسی کی گھنی چھاؤں اس گھر کی دیواروں پر بیٹھی ہمیں ڈراتی رہتی ہے جہاں کبھی صرف خوشی کا اجالا تھا، جہاں آنگن میں ہنسی کی دھوپ ناچتی تھی۔
تمہاری یادیں ہمیں جینے نہیں دیتیں یا یوں کہہ لو کہ ہم جینا ہی نہیں چاہتے۔ میں باپ ہوں اس لیے مجھے ہمت کرنا پڑتی ہے۔ پر تمہاری ماں کا ذہنی توازن دن بہ دن بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وقت آہستہ آہستہ اس کے دکھوں کا درماں بن جائے گا اور اس کے رستے ہوئے زخم بھر جائیں گے۔ وقت گذرتے گذرتے دو سال کا عرصہ گذر چکا ہے پر اس کا حال بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔
بیٹا، وہ اب تمہیں بہت کم یاد کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے ہوش و حواس میں ہی کم کم رہتی ہے۔ اب وہ ایسی دنیا میں رہتی ہے جہاں تم اس کے ساتھ رہتے ہو۔ وہ اب تمہارے زندگی کے سولہ برسوں میں جیتی ہے۔ اس کی زندگی پہلے بھی تمہارے گرد گھومتی تھی اور اب بھی تم ہی اس کی زندگی کا محور بنے ہو۔ تمہاری زندگی کے سولہ سالوں میں اس کا وقت تھم گیا ہے۔ میں اس کو یہ کیسے سمجھاؤں کہ تمہاری زندگی کی گاڑی وقت کی پٹری پر چلی ہی تھی کہ ظالموں نے زبردستی اس کی زنجیر کھینچ ڈالی۔ اس کو یہ سمجھانے سے میں قاصر ہوں کہ تم وہ کلی تھے جس کو پھول بننے سے پہلے کسی نے توڑ ڈالا۔ اس کو بتاتے بتاتے تھک گیا ہوں کہ جس کے کندھوں پر اسے صرف کتابوں کا بوجھ اچھا لگتا وہ اپنے سینے پر شہادت کے تمغے کا بوجھ سجا کر اب ابدی نیند سو گیا ہے۔ وہ ان تمام باتوں کو ماننے سے انکار کرتی ہے۔ اس نے وقت کی اس گھڑی کو مات دے ڈالی ہے جس میں تم اس کے ساتھ نہیں ہو۔ وہ اس بات کو غلط ثابت کرنے میں لگی ہے کہ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا۔ تمہارے جانے کے بعد وہ تمہارا ہر کام نماز کی طرح بغیر قضا کیے ہوئے ادا کرتی ہے۔ پیار محبت کے جذبات کے ساتھ ساتھ وہ کبھی کبھی تم پر غصہ ہو کر وہی جملہ بولتی چلی جاتی ہے جو ناراضی کی حالت میں بولا کرتی تھی کہ کھانا کھا لو کھا لو، مر جاؤں گی تو پھر کون نخرے اٹھائے گا۔ وہ تو تم سے پہلے مرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی اور مرنے سے پہلے تمہارے سب نخرے اٹھانا چاہتی تھی پر تمہیں مرنے کی اتنی جلدی تھی کہ اس کو تمہاری ناز برداریوں کا موقع ہی نہ مل سکا۔
عالم جنوں میں وہ گھر کی چیزوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر پھینکتی ہے۔ اس بے ترتیبی کر دیکھ کر کبھی کبھی مجھے بھی گمان ہوتا ہے کہ تم واپس آ گے ہو۔ وہ اکثر تمہیں بلند آواز میں ڈانٹتی بھی ہے۔ پھر تم کو منانے کے لیے اپنی انگلیوں کو اس طرح جنبش دیتی ہے جیسے وہ تمہارے بالوں میں پھیرا کرتی تھی۔ تمہارا نام پکارتے ہوئے تمہیں وہ اپنے تصور میں گلے لگا لیتی ہے اور پھر میرا چاند میرا چاند کہتے ہوئے بیٹھی مسکراتی چلی جاتی ہے۔ اس کی یہ مسکراہٹ میری روح تک کو زخمی کر دیتی ہے۔
سرد راتوں کو باہر صحن میں جا کربیٹھ جاتی ہے، آسماں پر نکلے چاند کی طرف اشارہ کرتی ہے اور کہتی ہے وہ رہا ہمارا چاند۔ جب کبھی ہوش میں ہوتی ہے تو اسی چاند کو دیکھ کر مجھ سے لپٹ کر روتے روتے کہتی ہے کہ ہمارا چاند ہم سے بہت دور چلا گیا ہے اور اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔
کبھی کبھی شکر کرتا ہوں کہ تمہاری ماں اپنے حواس میں نہیں ہے۔ ہوش میں رہ کر اسے کہاں سے تسلی ملتی۔ میں مرد ہوں اس لیے مجھے رونے کا حق حاصل نہیں۔ تمہاری ماں کا پاگل پن کبھی کبھی میرے لیے بہت سکون کا باعث بن جاتا ہے کیونکہ جب دنیا کے سامنے ایک بہادر باپ بن کر میرے اعصاب جواب دے جاتے ہیں تو میں اس کے سامنے جی بھر کر رو لیتا ہوں۔
تمہاری ماں دو بار خود کشی کی کوشش کر چکی ہے بڑی مشکل سے زندگی کی طرف گھسیٹ کر لایا تھا لیکن اس بار یہ سوچ رکھا ہے کہ اب کی بار تمہاری ماں نے ایسی کوشش کی تو اس کو زندہ رہنے پر مجبور نہیں کروں گا بلکہ اس کے ساتھ خود بھی مر جاؤں گا۔ اب بھی تو ہم گھٹ گھٹ کر ہر روزتھوڑا سا مر جاتے ہیں۔ ایک ہی بار مر جائیں گے تو قصہ پاک ہو گا، تم سے دوبارہ مل تو پائیں گے۔
(بشکریہ:ہم سب)