2دسمبر 1988ءکو بینظیربھٹو پاکستان کی وزیر اعظم بنیں تو اُنہوں نے پارٹی کی چیئرپرسن اپنی والدہ نصرت بھٹو کو سینئر منسٹر بنادیا۔ اس پر پرانے جیالوں کے دل کی کلی کِھل اُٹھی کیونکہ بیگم صاحبہ اُن بیشتر لوگوں سے واقف تھیں جنہوں نے اس پارٹی کےلئے قربانیاں دی تھیں، کوڑے کھائے تھے، قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں یا جلا وطن ہوئے تھے۔ اُن کی یہ بھی دلی خواہش تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پرانے ساتھی جنہیں مسعود محمود وغیرہ نے بھٹو اور پارٹی سے جدا کردیا تھا وہ کسی طرح پارٹی میں لوٹ آئیں،کیونکہ یہ وہی تھیں جنہوں نے بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والے لوگوں سے رابطہ کرکے بحالی ء جمہوریت کا وہ معاہدہ طے کیا جس پر نوابزادہ نصراللہ خان سمیت کئی لیڈروں نے دستخط کئے۔
بیگم نصرت بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری رخسانہ بنگش کو دسمبر 88 کے دوسرے ہفتے ہی رفیق پہلوان کی کال موصول ہوئی کہ معراج محمد خان بیگم نصرت بھٹو سے ملنا چاہتے ہیں۔ رخسانہ بنگش نے رفیق پہلوان کے کوائف پوچھے تو اُس نے کہا کہ ضیاءالحق کے 11برسوں میں آٹھ برس میں جیل میں رہا ہوں یا روپوش رہا ہوں یا پمفلٹ بانٹتا رہا ہوں۔ صرف دو برس مجھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر مصباح العین کے زمانے میں ایم اے اُردو درجہ اول میں پاس کرنے کا موقع ملا ہے۔ تب سے اب تک میں بیروزگار ہوں۔ بہرطور بیگم نصرت بھٹو کو جونہی پتا چلا کہ معراج محمد خان اُن سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ بہت خوش ہوئیں، اُنہوں نے اپنی سیکرٹری کو ہدایت کی کہ فوراً معراج محمد خان کو فون کرکے کل صبح چائے کی دعوت دیں۔ بیگم نصرت بھٹو اور معراج محمد خان کے مابین ملاقات کا زیادہ حصہ تجسس اور اضطراب بھرا تھا۔ بیگم صاحبہ کا خیال تھا کہ معراج محمد خان پارٹی میں واپس آنا چاہتے ہیں تو اُن کے راستے کی چھوٹی موٹی رکاوٹیں ہٹا کر ایک خیر مقدمی پیغام جاری کیاجائے جبکہ معراج محمد خان کو قطعاً علم نہیں تھا کہ اُن کے ایک جیالے یا پُرجوش ورکر رفیق پہلوان نے کس طرح کا فون کیا ہے تاہم اُنہیں اس بات کی خوشی تھی کہ بیگم نصرت بھٹو نے اُن کو بھلایا نہیں۔ اب یہ دونوں شخصیتیں انتظار میں تھیں کہ اصل بات کی جائے۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد نصرت بھٹو کو اندازہ ہوا کہ یہ ملاقات معراج محمد خان کی خواہش پر نہیں ہورہی۔ اس لئے اُنہوں نے کہا معراج! یہ رفیق پہلوان کون ہے؟ ایک دم سے معراج محمد خان کو ملتان سے تعلق رکھنے والا اپنا سیاسی اور فکری چیلا یاد آیا ۔ اس لئے اُنہوں نے کہا کہ مارشل لاءکے خلاف بہت سے لوگوں نے زبانی جمع خرچ کیا مگر جن چند لوگوں نے مسلسل مار کھائی جو رات بھر رنگ کا ایک ڈبہ لے کر دیواروں پر لکھتے تھے’ مارشل لاءہٹاﺅ ، کوڑے مارنا بند کرو ، پروفیسروں کو شاہی قلعے میں رکھ کے تشدد نہ کرو ، 1973ءکا آئین بحال کرو ‘اور پھر اُسے پولیس اٹھا کر لے جاتی تھی کسی وارنٹ اور چالان کے بغیر۔ کئی کئی مہینے سرکاری اور نجی عقوبت خانوں میں رکھا جاتا تھا۔ جونہی وہ رہا ہوتا تھا اپنا ڈبہ اور برش سنبھال لیتا۔
اسی ملاقات کے اختتام سے پہلے نصرت بھٹو نے کہا’ معراج رفیق کیوں چاہتا تھا کہ ہماری تمہاری ملاقات ہو‘؟ معراج محمد خان نے کہا ’ صاف بات ہے ایک مستحق بیروزگار مجھ سے سفارش کرانا چاہتا تھا اور اپنی معصومیت میں وہ یہ کام کرگزرا۔ پولیس اور باقی یونیفارم والے بھی اُس کی بعض اوقات اس طرح کی معصومانہ ترنگوں پر حیران اور پریشان ہوجایا کرتے تھے‘۔ شاید اسی ملاقات کے نتیجے میں رفیق پہلوان کو ایک بینک میں نوکری مل گئی۔ اُس نے شادی بھی کرلی اور ایک دو بچے بھی ہوگئے ۔ مگر اُسے معلوم نہیں تھا کہ اُس کی جدوجہد کا باب ختم نہیں ہوا۔ اُس نے دس مرلے کا ایک پلاٹ کئی برسوں کی کفایت شعاری سے جو خریدا تھا اُس پر اسلام آباد کے ایک بڑے مگر مچھ نے قبضہ کرلیا جس کے خاندان کا آدھا حصہ پیپلز پارٹی میں تھا اور باقی آدھا مسلم لیگ میں۔
میں جس زمانے میں مقتدرہِ قومی زبان میں تھا اور رفیق پہلوان جیسا ایک جیالا حبیب اللہ شاکر ایڈیشنل اٹارنی جنرل تھا تو میں نے حبیب اللہ شاکر سے اُس کے پلاٹ کو واگزار کرانے میں مدد دینے کا کہا۔ شاکر عام طور پر بہت اچھا ہے اپنے ساتھیوں کو یاد رکھتا ہے ، مگر اُس وقت اس نے بے خیالی میں مجھ سے پوچھا کہ کون رفیق پہلوان؟ تب میں روزنامہ دُنیا میں کالم لکھتا تھا۔ اُس میں میں نے جذباتی ہوکر یہ بھی لکھ دیا کہ آج پیپلز پارٹی کے جو لوگ پوچھ رہے ہیں کہ رفیق پہلوان کون تھا ؟ تو اُنہیں کیسے یاد دلایاجائے کہ جب بہاولپور جیل میں اُن کے ایک سرکردہ رہنما کو کوڑے لگنے تھے تو یہی رفیق پہلوان ہانپتا کانپتا میرے پاس آیا تھا کہ جیل کا سپرنٹنڈنٹ آپ کی ایک پرانی شاگرد کا منگیتر رہا ہے۔ اگر وہ لڑکی اُسے رقعہ لکھے تو شاید کوڑوں کی سزا معاف ہوجائے یا ہلکے ہلکے کوڑے لگائے جائیں۔ تو میں نے اُس سٹوڈنٹ کو بلایا وہ ایک اچھی خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہی تھی اور اُس کےلئے آسان نہیں تھا کہ اپنے سابق منگیتر کو کوئی خط لکھا جائے، مگر میں بھی رفیق پہلوان کا اُستاد تھا، میں نے ضیاءالحق دور میں مزاحمت کی تاریخ کا ایک روشن باب ایسے خط کو قرار دیا جو وہ لکھنے کا حوصلہ پیدا کرلے تو کسی جیالے کی کھال اُدھڑنے سے بچ جائے گی۔ بہر طور اُس باہمت خاتون نے جی کڑا کر کے وہ خط لکھ دیا۔ رفیق پہلوان نے ہی وہ خط جیلر تک پہنچایا اور اُس کے نتیجے میں ہمارے اُس دوست کی کچھ مشکلات آسان ہوئیں۔
یہی نہیں رفیق پہلوان جیل کا پرندہ تھا وہ میرے پاس جب بھی آتا تو ایک فہرست اُس کے پاس ہوتی تھی کہ فخر زمان، پروفیسر جمیل عمر، صفدر عباسی یا اسی طرح کے دوچار دوست آپ کو بہت بہت سلام کہہ رہے ہیں اور مجھے بھی پتہ تھا کہ رفیق پہلوان نے میرے بارے میں جاکر مبالغہ آمیز دعوے اُن غریبوں کے سامنے کرتا ہوگا۔ چنانچہ اُن کی فرمائشیں ہوتی تھیں یا رفیق پہلوان ان کی ضرورتوں کا ترجمہ کرتا تھا کہ فلاں فلاں قیدی کو فیض احمد فیض ، حبیب جالب، ظہیر کاشمیری، علی سردار جعفری یا اسرار الحق مجاز کے مجموعے چاہئیں یا فلاں فلاں کو علامہ اقبال یا نسیم حجازی کی کتابیں ، مگر دو دو کلو چینی، ایک ایک بوتل رُوح افزا اور چار چار صابن کی ٹکیوں کے ساتھ۔ میں اپنی محدود تنخواہ میں جو کرسکتا تھا وہ کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں میرے اپنی بیوی سے تعلقات ضیاءالحق سے بھی بدتر ہوگئے۔
میری بد قسمتی یہ ہے کہ ’دنیا ‘ میں میرے شکوے بھرے کالم کی شاید ایک یا دو ہزار فوٹو کاپیاں کراکے رفیق پہلوان نے تمام ملنے جلنے والے احباب میں تقسیم کردیں۔ جس کے بعد حبیب اللہ شاکر نے مجھ سے شکوہ بھی کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہی ہمیں کچھ برا بھلا کہہ لیتے،ہمیں رفیق پہلوان کے ہاتھوں یوں رسوا نہ کرتے۔ میں نے کہا یہ پمفلٹ بانٹنے کی ٹریننگ بھی تم نے ہی رفیق پہلوان کو دے رکھی ہے اس لئے بھگتو۔
اسی طرح جب میں یونیورسٹی آف گجرات کے سیالکوٹ کیمپس میں ڈی۔جی کے طور پر کچھ عرصہ کام کرنے گیا تو سیال کوٹ کے فوجداری کے ایک بہت بڑے وکیل پرویز چیمہ نے بڑے ادب سے مجھے یاد دلایا کہ وہ گیلانی لاءکالج میں پڑھتا تھا۔ این ایس ایف کا ورکر تھا۔،تب آپ عرش صدیقی صاحب کے گھر کے ایک حصے میں کرایہ دار کے طور پر رہتے تھے اور میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آپ سے ملنے آیا تھا اُس وقت ہمارے وارنٹ جاری ہوچکے تھے اور پولیس نے چھاپہ مارا تھا تو آپ نے ہمیں چھت سے ہمسایوں اور پھر اُن کے ہمسایوں کے گھروں کی طرف سے نکالا تھا۔ اُس وقت آپ کی بیگم صاحبہ نے ہمیں اور آپ کو بہت بُرا بھلا کہا تھا۔ چیمہ سے میں نے کہا یہ آخری پکی نشانی ہے کہ تم میرے گھر آئے تھے، لیکن اب میرا معاوضہ یہ ہے کہ رفیق پہلوان کے پلاٹ کا قبضہ چھڑوا دو۔ کیونکہ سنا ہے تم ناصرف پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے زعماءسے واقف ہو بلکہ اسلام آباد کے تاجی قبضہ مافیا کے اہم سرداروں سے بھی تمہاری واقفیت ہے۔ چیمہ نے کہا کہ سر آپ فکر نہ کریں آج آپ کے اس شاگرد نے سیالکوٹ کے 30سے زائد قاتلوں اور مجرموں کو سزائے موت کے پھندے سے بچایا ہے جس پر میں نے اُسے شاباش دیتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ میں جرائم کی شرح بڑھانے میں تمہارا ایک مجاہدانہ کردار ہے۔بہرطور جب تک میں وہاں رہا چیمہ کی گپیں سنتا رہا کہ میں تاجی کھوکھر سے مل آیا ہوں، میں فلاں سے بات کرچکا ہوں ، ڈی آئی جی سے بات ہوگئی ہے ، آپ عنقریب نتائج دیکھیں گے مگر ایک ایک کرکے حکومتیں بدلتی رہیں حتیٰ کہ نواز شریف کا جیالا پرویز رشید ناصرف وزیر اطلاعات ہوگیا بلکہ میاں صاحب کا معتمد خصوصی بھی۔ پرویز رشید بھی این ایس ایف کا جیالا تھا اور رفیق پہلوان کی طرح معراج محمد خان کا چیلا بھی۔ اس لئے رفیق پہلوان کی عرضیوں ، اپیلوں اور ٹیلی فونوں کا ہدف اب بدل گیاتھا۔ اُسے دیوانگی کے اس مرحلے میں بینک انتظامیہ نے دیکھ کر اُسے رائیونڈ برانچ میں بھی تبدیل کردیا۔ مگر رفیق پہلوان کے احوال میں کوئی فرق نہ آیا۔ تقریباً ہر روز وہ مجھے فون کرکے کہتا تھا کہ پرویز رشید نے اب پکا وعدہ کرلیا ہے اور آئی جی کو پابند کردیا ہے کہ جنہوں نے رفیق پہلوان کے پلاٹ پر قبضہ کیا ہے اُنہیں کیفر کردار تک پہنچا دیاجائے مگر اس کی بجائے پولیس ماڈل ٹاﺅن والوں پر ٹوٹ پڑی ۔
اب جب کہ پہلے سپریم کورٹ اور پھر عمران خان کی حکومت قبضہ مافیا کے خلاف ابتدائی اقدامات کئے ہیں تو رفیق پہلوان کی عرضیوں کی رفتار اور آنسوﺅں کی روانی بڑھ گئی ہے، کبھی نہ رونے والا،کبھی نہ ہار ماننے والا رفیق کہنے لگا،’سائیں میں اب تھک گیا ہوں،دعائیں مانگ مانگ کے،بد دعائیں کر کر کے،ملنے والوں کی اکڑی ہوئی گردنیں دیکھ دیکھ کے سوجی ہوئی بوتھیاں دیکھ دیکھ کے،مجھے لگتا نہیں کہ میری زندگی میں میرے پلاٹ کا قبضہ واپس مل جائے گا،چلو میرے مرنے کے بعد میری بیٹی اور بیوہ کو ہی یہ مل جائے تو میں اگلے جہان عرضیاں دینے سے بچ جاﺅں گا۔
”ایک کنال موضع جِبّی تحصیل راولپنڈی جس کے بارے میں پٹواری نے 23-7-2014کو یہ رپورٹ دی تھی حسب الحکم ریکارڈ مال موضع جِبّی ملاحظہ کرنے سے پایا گیا ہے کہ متعدد رجسٹر حقداراں زمین سال 2007-2008 کی کھیوٹ نمبر13/16، نمبر خسرہ 298/179-19کا 20/599موضع مذکورہ پر جزوی آبادی وپلاننگ ہوکر پلاٹ بن چکے ہیں نمبر خسرہ مذکورہ کے کافی ایریا پر ائیرپورٹ ہاﺅسنگ ایمپلائز کو آپریٹو سوسائٹی نے پلاٹ بنائے ہیں جن پر تعمیرات ہوچکی ہے ۔ رقبہ ہذا مذکورہ کے مشترکہ مالکان ہیں ۔سائل کی داد رسی اُسی صورت ممکن ہے کہ وہ رقبہ مذکورہ کی تقسیم بذریعہ عدالت کرائے۔چنانچہ بورڈ آف ریونیو پنجاب کے سیکرٹری نے 8-01-15کو رفیق پہلوان کو بذریعہ خط مشورہ دیا کہ وہ مجاز عدالت سے رجوع کرے “۔
چنانچہ رفیق پہلوان اب ایک عرضی ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو لکھتا ہے ایک عرضی چیف جسٹس ثاقب نثار اور ایک وزیر اعظم عمران خان کو۔ کبھی کبھار رفیق پہلوان دُکھی ہوکر سوال کرتا ہے کہ جمہوریت بحال ہوکر بھی 1973ءکا آئین فعال ہوکر اور عدالتیں آزاد ہوکر بھی میرے اُس ایک پلاٹ کو واگزار نہیں کراسکتیں جس کی قسطیں میں نے پائی پائی جمع کرکے ادا کی تھیں۔