خیر محمد بدھ ایمرسن کالج ملتان میں ہم سے ایک یا دو کلاس جونیئر تھے، وہ امروز ملتان کے تعلیمی صفحے کے لئے بھی اُسی طرح کالم لکھتے تھے جیسے میں، اصغر ندیم سید، تنویر اقبال یا کریم ملک۔ تب ہم سب کے صحافتی معلم مسعود اشعر تھے، جو ہمارے تعلیمی کالموں میں ادبیت پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہتے۔ خیر محمد بدھ فارغ التحصیل ہو کر لیبر ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے اور پھر وہ مقابلے کے امتحان میں شریک ہوکر فیاض تحسین قسم کے افسر بھی ہو گئے مگر اُن کی شخصیت میں پہلے سے موجود انکسار اور شرمیلے پن کا تاثر اتنا گہرا رہا کہ اپنی افسری میں بھی وہ ہمیشہ ایک شریف النفس ہی محسوس ہوئے۔
میں جب ایم اے اردو کا طالب علم تھا تو استادِ محترم سید ریاض حسین زیدی نے(جو اردو اکادمی کے سیکرٹری بھی تھے) ایک روز مجھے کہا کہ آج تمہیں کمرہ نمبر فلاں میں آنا ہے وہاں میرے ٹٹوریل گروپ کے انتخابات ہیں اور تمہیں ہر قیمت پر وہاں الیکشن لڑنا ہے، مجھے تمہیں صدر بنا کر کچھ بڑے فنکشن کرانے ہیں۔ مجھے یہ احساس تھا کہ میں جس ٹٹوریل میں پہلے کبھی نہیں گیا وہاں مجھے جاتے ہی انتخاب میں نہیں کھڑا ہونا چاہیے مگر اُستاد کے حکم پر میں وہاں گیا،البتہ رﺅف شیخ کو اپنے ساتھ زبردستی لے گیا کہ الیکشن میں میرا نام تجویز کرنے والا تو کوئی ہو۔ نتیجہ میری شکست کی صورت میں نکلا اور مجھے شکست کی ہزیمت سے دوچار کرنے والے خیر محمد بدھ تھے۔ تاہم بعد کی زندگی میں مَیں نے اس واقعے سے یہ عبرت حاصل کی کہ امپائر کی انگلی کھڑے ہونے کے وعدے پر کبھی کوئی تحریک نہیں چلانی چاہیے اور کسی طاقت ور کے کہنے پر بھی اُن لوگوں سے تائید کی کبھی توقع نہیں رکھنی چاہیے جن کے ساتھ آپ کبھی بیٹھے نہیں اور بات چیت نہیں کی۔
لیبر کے محکمے سے وابستہ ہوکر مزدوروں، آجروں اور قانون کی موم کو موڑنے والے ہاتھوں سے جتنی شناسائی خیر محمد بدھ کی ہے شاید ہی ہمارے خطے میں کسی کی ہو۔ وہ برس ہا برس سے کالم لکھ رہے ہیں اگرچہ وہ اخبارات بدلتے رہے ہیں وہ لوگ جو اپنی کالم نویسی کے ذریعے کچھ لوگوں کو ڈراتے، دھمکاتے یا اُن سے مفادات حاصل کرتے ہیں یا دم توڑتی حکومتوں کو جن کالم نگاروں سے مدد کی توقع ہوتی ہے یا ان حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کی خواہاں قوتوں کو جس طرح کے کالم نگار درکار ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ خیر محمد بدھ کا نام ان تینوں زمروں میں شامل نہیں۔ کوئی چاہے تو ان کے ایسے بے ضرر کالموں پر ہومیو پیتھ کالم کی پھبتی بھی کس سکتا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اُن کے کالموں کا یہ مجموعہ نا صرف اس خطے کے بہت سے بے بس اور بے نوا لوگوں کے شب وروز کو سامنے لا سکتا ہے بلکہ اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت بھی رائے عامہ کو محسوس کرا سکتا ہے۔ ایک صاحب شعور کی طرح انہوں نے تعلیم کے حوالے سے بھی بعض بنیادی اہمیت کے سوالات اُٹھائے ہیں جیسے’ملتان میں یونیورسٹی کی ضرورت‘، ’تعلیمی پالیسی 2009‘،’جہالت کا خاتمہ ایک چیلنج‘،’پرائمری تعلیم کی اہمیت‘،’سو فیصد شرح خواندگی مگر کیسے‘،’تعلیمی نظام کی اصلاح‘،’سلام ٹیچرڈے‘،’مفت اور لازمی تعلیم کا قانون…. سندھ بازی لے گیا ‘،’خواندگی کا عالمی دن‘،’تعلیم میں بہتری کب آئے گی ؟‘،’نئی یونیورسٹیوں کا قیام‘ وغیرہ،اسی طرح انہوں نے معاشرے کے کمزور طبقات کے بارے میں بھی تواتر سے لکھا ہے،جیسے’ خواتین ورکرز کے مسائل‘ ’کم عمرکی شادی۔ایک تجربہ‘،’کپاس کا بحران‘،’سفید پوش خاکروب‘،’چائلڈ لیبر ڈے‘،’زراعت کو بچائیں‘،’غریبوں سے زیادتی‘،’غربت کا علاج‘،’گندم کی خریداری‘،’صارفین کدھر جائیں‘۔
اس کتاب میں نسبتاً ایک بلند آہنگ کالم بھی ہے’نئے صوبے کی منزل قریب ہے‘،یہ بات اب محض ایک خواب یا آرزو نہیں، ایک سرگرم مطالبہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ آیندہ انتخابات سے پہلے پنجاب کے اس حصے میں کوئی سیاسی جماعت اس کا مثبت جواب دیئے بغیر ووٹرز کا سامنا نہیں کر سکے گی۔
(خیر محمد بدھ کے کالموں کی مجموعے کا پیش لفظ)