”قیامِ پاکستان کے وقت جب پاکستان کی طرف ہجرت کے آغاز میں ہی ضلع روپڑ کے ایک گاﺅں سے چلنے والے ہمارے قافلے پر سکھوں کا وحشیانہ اور قاتلانہ حملہ ہوا تو ہمارا سارا کنبہ بچھڑ گیا۔ میں سات سال کا تھا اور تمہاری دادی کے ساتھ ان وحشی قاتلوں سے جان بچ جانے کے بعد ہم ماں بیٹا اس ٹرین کے انتظار میں کھڑے تھے جو پاکستان لے کر جارہی تھی۔ تو اچانک تمہاری دادی نے مجھ سے کہا ”صادق پتر ساڈے سارے اپنے مرگئے نیں۔ اسی جی کے کی کرنا اے (صادق بیٹا، ہمارے سارے اپنے مرگئے ہیں، ہم جی کر کیا کریں گے)۔ آ اسی وی گڈی تھلے آکے مرجاندے آں (آﺅ ہم بھی گاڑی کے نیچے آکے مرجاتے ہیں)اور مجھے لے کر ٹرین کی پٹری پر لیٹ گئیں۔ لیکن تھوڑی دیر بعد میں اچانک اٹھا اور بولا ”ماں توں مرنا اے تے مر، میں حالی نئیں او مرنا (ماں تم نے مرنا ہے تو مرو میں نے ابھی نہیں مرنا) اور وہاں سے بھاگ کر دور جا کر کھڑا ہوگیا۔ ناچار تمہاری دادی بھی میرے ساتھ آکر کھڑی ہوگئی اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر رونے لگی۔“
میرے پیارے ابو جان آپ کو یاد ہے نا! آپ اکثر ہمیں یہ واقعہ سنایا کرتے تھے اور اس کے بعد کی آپ کی ساری عمر زندگی کو بہتر سے بہتر انداز میں جینے کے لیے کی جانے والی کوششوں اور ہمتوں کی ایک حیران کن داستان ہے۔ آپ کا شمار بلاشبہ ”سیلف میڈ“ افراد میں ہوتا تھا۔
اور 31 جولائی 2016 ءکی اس شام آپ کا بے جان وجود پھولوں بھرے کفن میں لپٹا ہوا ہمارے سامنے پڑا تھا۔ آخرکار سب کی طرح آپ بھی زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ ابو جان آپ کو خود بھی اچھی طرح معلوم ہے نا کہ سرطان(Cancer) جیسے موذی اور مہلک مرض کا آٹھ سال تک جس طرح آپ نے مقابلہ کیا۔ اس سارے طویل اور تکلیف دہ عرصہ کے دوران آپ کے حوصلہ اور ہمت کی کون گواہی نہیں دے گا۔
ابو جان! درمیانہ قد، کسرتی جسم، کھلتے ہوئے گندمی رنگ اور خوبصورت نین نقش کی وجہ سے آپ کا شمار وجیہ مردوں میں کیا جاتا تھا۔ لیکن اس مہلک مرض سے لڑتے لڑتے آپ آخری کچھ مہینوں میں بہت ناتواں ہوگئے تھے۔ بہت کمزور لیکن ابو جان، آپ کو یہ بتاﺅں کہ جب آپ کو غسل دے کر اور کفن میں لپیٹ کر اندر لایا گیا تو آپ کے چہرے کی تروتازگی، بشاشت اور ہونٹوں پر پھیلی پرسکون مسکراہٹ کو دیکھ کر سب انگشت بدنداں رہ گئے۔
ایک اور بات آپ کو بتاﺅں ابو جان کہ آپ کو رخصت کردینے کے بعد امی جان سب کو بتاتی رہیں کہ اس وقت صادق کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ وہی صادق ہے، وہی خوبرو اور تنو مند جوان جو اڑتالیس سال پہلے مجھے بیاہنے آیا تھا۔ ابو جان آپ کے جدا ہونے کے بعد بہت دل چاہتا تھا میرا کہ ساری دنیا سے آپ کی باتیں کروں اور آپ سے اپنے کی دل کی باتیں کروں لیکن جب بھی ایسا کرنے کا سوچتی تو دل دکھ سے بھر جاتا اور آپ سے دائمی جدائی کا دکھ پہلے حلق میں پھندا بن کر قوتِ گویائی کو ہی سلب کرلیتا اور پھر قطرہ قطرہ آنسو بن کر آنکھوں سے ٹپکنے لگتا۔ اپنے پیاروں کی جدائی سب کو ایسے ہی رلاتی ہوگی۔
میرے پیارے ابو، سارے والدین ہی اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ یہ خود ماں باپ بننے کے بعد پتا چلتا ہے لیکن شاید باپ اپنی بیٹوں سے اور بیٹیاں باپ سے قدرتی طور پر زیادہ پیار کرتی ہیں۔ آپ نے بھی اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کیا۔ آپ کا یہ جملہ دنیا والوں کے لیے قابلِ اعتراض ہوتا ہوگا لیکن ہم بیٹیوں کے لیے تو یہ اپنے ہونے کا ایک بہت قابلِ فخر جواز بن جاتا تھا۔ جب آپ کہتے ”یہ لڑکا لڑکی یا بیٹا بیٹی کیا ہوتا ہے۔ کونسا ایسا کام ہے جو بیٹا کرسکتا ہے، بیٹی نہیں۔“محبت کے ساتھ ساتھ کتنی عزت دی آپ نے ہمیشہ ہم بیٹیوں کو، حتیٰ کہ ہمارے بیاہے جانے کے بعد جب بھی ہمارا آپ کی طرف جانا ہوتا تو آپ ہمیشہ گھر کے دروازے سے باہر آکر ہمارا استقبال کرتے اور اس طرح رخصت کرنے کے لیے بھی باہر تک آجاتے اور تب تک اندر نہ جاتے جب تک ہم نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتیں۔ آپ نے ہم بیٹیوں کو محض محبت اور عزت ہی نہیں بلکہ اعتماد کے ساتھ سر اٹھا کر جینے کی ہمت بھی دی۔
سنتے آئے ہیں کہ جب ماں فوت ہوجائے تو کوئی ماں کی طرح دعا دینے والا نہیں رہتا اور جب باپ فوت ہوجائے تو کوئی باپ کی طرح حوصلہ دینے والا نہیں رہتا۔میرے ابو جان! آپ خود بھی ہمت، حوصلہ اور جراءت مندی کا پیکر تھے۔ صرف اپنے لیے ہی نہیں کسی کے ساتھ بھی ہونے والی زیادتی یا غلط بات کے خلاف ڈٹ جاتے اور اس حوالے سے برداشت کرنے یا سمجھوتہ کرنے سے زیادہ مرجانے کو ترجیح دیتے۔
آپ کی زندگی کا ہر پل ہمت، کوشش اور محنت سے عبارت تھا، جیسے ڈاکٹر کا پہلا جملہ کہ “اتنا بڑا مسئلہ نہیں جلد شفاءمِلے گی“ مریض کو بیماری کے نتیجے میں مبتلا ہونے والے نفسیاتی خوف سے آزاد کرکے اس میں ایک نئی امنگ اور حوصلہ پیدا کردیتا ہے۔ اسی طرح ہم جب بھی آپ سے اپنی کوئی پریشانی یا مسئلہ بیان کرتے تو آپ کا پہلا جملہ ہی یہ ہوتا تھا ”بیٹا اتنا بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ انشاءاللہ کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں گے اس کا“ اور وہیں ہماری آدھی پریشانی دور ہوجاتی۔ اور ہم خود کو بہت باہمت اور پرسکون محسوس کرتے۔
ابو جان، آپ کو ایک اور بات بھی بتانا چاہ رہی ہوں آج کہ جب میں آٹھ برس کی تھی تو آپ ترکی کی ایک کمپنی کی جانب سے پُرکشش مشاہرہ کی پیش کش قبول کرنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے اور جب میں اٹھارہ برس کی ہوئی تو آپ ریٹائرمنٹ لے کر واپس پاکستان آگئے۔ بچپن اور نوجوانی کا یہ عرصہ والدین اور بچوں کے درمیان قربت، ہم آہنگی اور بے تکلفی پر مبنی مضبوط تعلق کے لیے بہت اہم ہوتا ہے لیکن حیرت کی بات تھی کہ زندگی کے اس اہم دور میں آپ سے دور ہوتے ہوئے بھی آپ کی واپسی کے بعد آپ کی ذات سے ملنے والے تحفظ اور مضبوط سہارے کا احساس اتنا گہرا ہوگیا کہ ہم بلاجھجک ہر بات آپ سے shareکرتے تھے۔
لیکن پتا نہیں کیوں میرے پیارے ابو، کوئی ان دیکھی سی دیوار آپ کے اور ہمارے بیچ ہمیشہ حائل رہی اور آپ کے رخصت ہوجانے کے بعد دردانہ (بہن) بھی روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ میرا بہت دل چاہتا تھا کہ میں ابو سے اپنے دل کی باتیں کروں اپنے اور ابو کے حوالے سے لیکن میں نہیں کرسکی اور پتا نہیں کیوں یہ اَن دیکھی دیوار آخر تک آپ کے اور ہمارے درمیان سے نہ ہٹ سکی۔
میرے ابوجان، آپ ایک سیلف میڈ انسان تھے اور شاید ہر سیلف میڈ انسان اپنے فیصلوں کی درستی کا خود بھی اتنا قائل ہوجاتا ہے کہ اس حوالے سے کسی دوسرے کی صلاحیت کو تسلیم کرنا اس کے لیے تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسے ایسا لگتا ہے کہ شاید دوسرے لوگ درست فیصلہ نہ کر پائیں اور غلط فیصلے کے نتیجے میں نقصان سے دوچار ہوں اور اولاد کے معاملے میں تو والدین بالخصوص ہمارے معاشرے کے بہت جذباتی اور حساس ہوتے ہیں۔ اپنی اولاد کو وہ کسی قیمت پر نقصان اٹھاتے ہوئے یا کسی مصیبت میں نہیں دیکھ سکتے۔
میرا خیال ہے کہ اس بات سے ہر کوئی اتفاق کرتا ہے کہ مزاج یا غصے کے تیز لوگ دل کے بہت صاف اور کھرے ہوتے ہیں۔ امی جان اور ہم (آپ کے بچے) یہ بات سب اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے کبھی کسی کے لیے دل میں بغض نہیں پالا، کینہ نہیں رکھا، کبھی کسی سے منافقت نہیں کی۔ شاید اسی لیے آپ لوگوں پر اعتبار بھی جلد کرلیتے تھے اور اسی وجہ سے پاکستان واپس آنے کے بعد آپ کے کاروباری شراکت داروں نے آپ کی اس سادہ دلی، دوسروں کے لیے ہمدردی، خلوص اور دوسروں پر اعتبار کرنے والی آپ کی خوبیوں کو آپ کے لیے سزا بنا دیا۔
پیارے ابو، پاکستان واپسی سے آپ کی وفات تک کا عرصہ اٹھائیس برسوں پر محیط ہے۔ اس سارے عرصہ میں لوگوں سے ملنے والے فریب کے نتیجے میں شدبد مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ گذشتہ آٹھ برسوں سے کینسر جیسے موذی مرض سے بہت حوصلہ اور استقامت کے ساتھ نبردآزما تھے اور ہر دو حوالے سے آپ نے کبھی بھی ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ آپ کبھی کمزور پڑے ہوں، نااُمید ہوئے ہوں یا ہمت ہار گئے ہوں۔
ابوجان، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کم از کم میں نے کبھی آپ کو کہا ہو کہ آپ ’ہمت کریں‘، ’حوصلہ نہ ہاریں‘ کیونکہ کبھی آپ کو دیکھ کر یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ وفات سے چند روز قبل جب آپ ڈائیلسسز کے لیے میرے یہاں آئے تو مجھ سمیت آپ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ میری اور آپ کی آخری ملاقات ہوگی اور تب تک آپ اتنے نحیف ہوچکے تھے کہ آپ کی آواز کی بلند آہنگی تقریباً مفقود ہوگئی تھی۔ آپ بہت آہستہ آواز میں بات کرتے تھے۔ تب بھی ابو جان، آپ نے جاتے جاتے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر جو آخری جملہ کہا وہ ابھی تک میرے کانوں میں گونجتا رہتا ہے اور مجھے ایک نئی ہمت اور حوصلہ دیتا رہتا ہے۔ آپ نے کہا تھا ”بیٹا پریشان مت ہونا، تمہارا باپ بیمار ضرور ہوا ہے لیکن کمزور نہیں پڑا“ شاید اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو سب سے زیادہ ہمت اور حوصلہ ہی تب دیتا ہے، انہیں مضبوط تب بناتا ہے جب انہیں ماں باپ کے عظیم مرتبے پر سرفراز کرتا ہے۔
میرے پیارے ابو جان! آپ بھی تو ہم سب کی طرح ایک انسان ہی تھے نا۔ بہت سی بشری کمزرویاں ہونگی آپ کے اندر بھی۔ دینی و دنیاوی معاملات میں کوتاہیاں بھی اتفاقاًیا سہواً سرزد ہوئی ہونگی۔ کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ دوسرے لوگوں سے آپ کے رویوں اور فیصلوں میں غلطیاں اور زیادتیاں بھی ہوجاتی ہونگی۔لیکن ہم (آپ کے بچوں) سے زیادہ کون اس حقیقت سے باخبر ہوگا کہ آپ کی نیک نیتی اور خلوص میں کبھی کوئی غلطی کہیں کوئی کمی نہیں تھی اور ہمارے تو آپ ”ابو جان“ تھے۔ ہمارے سروں کی چھت اور تحفظ دینے والا ایک مضبوط قلعہ۔
فیس بک کمینٹ