کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ موضوعات‘ سوچ کے دائرے میں آنے سے یوں بدکا کرتے ہیں جیسے غلیل سے کوّا‘ مگر آج جو کلپ بورڈ پر کاغذ چڑھا کر لکھنے کو بیٹھا ہوں تو تین چار موضوع باہم دست و گریباں ہیں کہ پہلے میں‘ پہلے میں۔ دیکھئے کون قرطاس پراترتا ہے مگر قبل از وقت اس امر کا اظہار کرنا’’ قاری ہوشیار باش‘‘ ( بروزنِ مشتری ہوشیار باش) کے اصول کے تحت ضروری تھا۔ اب تو دس پندرہ روز کے بعد’’خبریں‘‘ کے قارئین کو یہ کالم پڑھنے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے تاہم ہوسکتا ہے کہ اگلے ہفتے کے دوران میں یہ بار دو سے تین بار ان کی بصارتوں پر سواری کرے۔ خیر! ان جملہ ہائے معترضہ سے صَرفِ نظر کیجئے اور آپ یہ دو واقعات پڑھئے جو پچھلے دنوں کسی اخبار میں میری نظر سے گزرے۔
یہ چودہ اگست1947ء سے گیارہ ستمبر 1948ء کے درمیان کا کوئی زمانہ ہے۔ گورنر جنرل کے نوجوان اے ڈی سی کو کھانے کے کمرے میں طلب کیا جاتا ہے۔ اس غیر متوقع طلبی پر اے ڈی سی کچھ گھبراہٹ کا شکار ہے۔ بہ ہر حال وہ کھانے کے کمرے کی طر ف روانہ ہوجاتا ہے۔ اندر داخل ہوتا ہے توگورنر جنرل کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دیکھ کر اے ڈی سی کی گھبراہٹ سِوا ہوجاتی ہے۔ گورنر جنرل شستہ انگریزی میں مخاطب ہوتے ہیں مگر لہجہ کڑوا اور سخت ہے۔ ’’ آپ کو کہا گیا تھا کہ کھانے کی میز پر جتنے مہمان ہوں‘ اتنے ہی سیب رکھا کریں۔ آج میرے اور ہم شیرہ کے علاوہ صرف ایک مہمان تھا‘ گویا کل تین لوگ مگر آپ نے میز پر چار سیب رکھوائے۔ یہ نہ صرف کھانے کا ضیاع ہے اور میرے حکم سے لاپروائی بلکہ سرکاری پیسے کا بھی اسراف ہے‘‘۔ نوجوان اے ڈی سی سر جھکائے کھڑا ہے۔ اس جواب طلبی پر وہ صرف یہ کہہ سکا ہے’’ سر! یہ واقعی میری غلطی ہے‘ میں اس کی ذمہ داری قبول کرتاہوں۔ آئندہ غلطی نہیں ہوگی‘‘۔ یہ اعتراف اور آئندہ احتیاط کا سن کر گورنر جنرل محمد علی جناح نرم پڑ جاتے ہیں۔ ’’ ٹھیک ہے‘ آپ جاسکتے ہیں‘‘۔ کہتے ہیں چند سال قبل یہ واقعہ اس اے ڈی سی نے جو کئی دہائی قبل برگیڈئیر کے عہدہ سے ریٹائر ہوچکا تھا‘ ایک کلاس روم میں جب سنایا تو وہ خوداور کمرۂ جماعت میں موجود پندرہ بیس افراد سبھی کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
چودہ اگست1947ء کوپاکستان بناتو خواجہ ناظم الدین مشرقی پاکستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے۔چودہ ستمبر سن اڑتالیس تک وزیر اعلیٰ رہے پھر گورنر جنرل بن گئے۔ سترہ اکتوبر انیس صد اکیاون تک گورنر جنرل پھر سترہ اکتوبر سن اکیاون سے سترہ اپریل سن ترپن تک وزیراعظم پاکستان رہے۔ یہ واقعہ اسی ڈیڑھ برس کے دوران کا ہے جب خواجہ صاحب پاکستان کے دوسرے وزیراعظم تھے۔ سن باون کی گرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔ ایک دن وزیراعظم سرکاری گاڑی پر دفتر جارہے تھے جب ڈرائیور نے بڑی لجاجت سے درخواست کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ وزیراعظم نے یہی سوچا ہوگا کسی عزیز رشتہ دار کی سفارش کرے گا‘ سو بے دلی سے اجازت دے دی۔ ڈرائیور بولا’’سر وزیراعظم کے دفتر میں سرکاری گاڑی کے لئے کوئی شیڈ نہیں ہے۔ آپ کو ڈراپ کر کے گاڑی دھوپ میں کھڑی کرنا پڑتی ہے جو چھ سات گھنٹے کھڑی رہنے کی وجہ سے تَپ جاتی ہے۔ سٹیئرنگ‘ ڈیش بورڈ وغیرہ اس قدر گرم ہوجاتے ہیں کہ ہاتھ رکھنا دشوار ہوتا ہے۔ ازراہِ کرم وزیر اعظم کی سرکاری گاڑی کے لئے شیڈ تعمیر کرنے کے احکامات جاری فرمائیے‘‘۔
وزیراعظم نے بات سن لی اور خاموش ہوگئے۔ کئی روز گزرگئے‘ ڈرائیور نے ایک روز پھر درخواست کی۔ دوسری تیسری دفعہ ڈرائیور کے اصرار پر وزیراعظم نے ایک دن سٹاف کو کہا کہ سرکاری گاڑی کے لئے شیڈ بنانے کا تخمینہ لگوائیں۔ سٹاف نے ایک کاغذ پر تیرہ سو روپے کا تخمینہ بنوا کر وزیراعظم کو پیش کردیا۔ یہ کاغذ کئی دن وزیراعظم کے میز پرپڑا رہا۔ پھر جو ایک دن دفتر آتے ہوئے ڈرائیور نے اپنا رونا رویا تو وزیراعظم نے وہ تخمینے والا کاغذ وزارتِ خزانہ کو مارک کردیا۔ کچھ دنوں بعد سیکرٹری خزانہ کی طرف سے جواب موصول ہوا۔ ’’ مہاجرین کی آمدورفت زوروں پر ہے اور مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لئے خزانے سے بے حد رقوم خرچ ہورہی ہیں چناں چہ فی الحال وزیراعظم کی گاڑی کے لئے شیڈ بنانے کی رقم فراہم کرنا ممکن نہیں‘‘۔ وزیراعظم نے ڈرائیور کو بلوا کر بتایا کہ سیکرٹری خزانہ ٹھیک کہتاہے۔ ابھی انسانوں کو چھاؤں کی ضرورت ہے‘ گاڑیوں کو چھاؤں دینے کو رقم مہیا نہیں کی جاسکتی۔ ڈرائیور خاموش ہوگیا‘ سابق گورنر جنرل اور وقت کا وزیراعظم تپتی ہوئی سرکاری گاڑی میں دفتر سے واپس گھر جاتا رہا۔
جالندھر کے چودھری محمد علی‘ پاکستان کے چوتھے وزیراعظم تھے۔ یہ انہی دنوں وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز رہے جن دنوں کے بارے میں نہرو نے کہا تھا کہ ’’میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم بدلے جاتے ہیں‘‘ بہ ہر حال چودھری صاحب بارہ اگست پچپن سے بارہ ستمبر چھپن تک‘ گیارہ ماہ وزیراعظم رہے۔ پہلے روزوہ وزیر اعظم ہاؤس میں رات گئے تک کام میں مصروف رہے پھر جو کام ختم کر کے اٹھے تو عملے کو وزیراعظم ہاؤس دیکھنے کی فرمائش کردی۔ نئے وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا سو ہاؤس کی تمام بتیاں روشن کردی گئیں۔ وزیراعظم نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کے دورے کے دوران غیر ضروری روشنیوں پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اپنے ہاتھ سے انہیں گُل کیا۔ پھر اگلے تیرہ ماہ جب تک وزیراعظم رہے‘ ہاؤس کی فضول بتیاں بجھا کر سوتے۔ چودھری محمد علی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انتہائی سادہ غذا کھاتے اور وزیراعظم ہاؤس کے کچن کا خرچہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔
اب گزری صدی کی چوتھی دہائی کے اواخر اور پانچویں کی نصفِ اول کے پس ماندہ پاکستان سے نکل کر زمانۂ حال کے پاکستان میں تشریف لے آئیے۔ اکیسویں صدی کا پاکستان‘ ترقی کی منزلیں مارتا پاکستان۔ موٹرویز کا‘ پلوں کا اور انڈر پاسوں کا پاکستان۔ یہ سطریں لکھی جارہی ہیں تو اتوار کا دن ہے۔ بانئ پاکستان اور موجودہ وزیراعظم پاکستان کی سال گرہ کا دن۔ تاخیر سے سہی مگر اہلِ وطن کو یہ دونوں سال گرہیں مبارک۔ آج کے خبریں کے صفحۂ اول پر چھپی یہ خبر شائد آپ دیکھ چکے ہوں ‘ ایک بار پھر پڑھئے۔
پاکستان اور چین کی دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن نواز شریف نے چین سے آئی ہوئی لفٹ وزیراعظم ہاؤس میں لگانے سے روک دیا اور منظور ہونے والی چینی ساختہ لفٹ کے بجائے ہدایت کی کہ ویسٹرن لفٹ لگائیں جس کی وجہ سے وی وی آئی پی لفٹ(کے اخراجات) میں ساڑھے ستائیس فی صد یعنی تقریباً ایک کروڑ دو لاکھ اضافہ ہوگیا۔(دوسری طرف) وزارتِ پلاننگ کے اعتراضات کے باوجود حکومت نے وزیراعظم ہاؤس کی توسیع کے منصوبے کی منظوری دے دی جس کے تحت(منصوبے کے اخراجات میں) 162فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال جون میں سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے 113.9ملین روپے ( 11کروڑ 39لاکھ )کے منصوبے کی منظوری دی تھی لیکن اب منصوبے کی لاگت پر نظر ثانی کرتے ہوئے یہ رقم بڑھا کر 298.2ملین(29کروڑ 82لاکھ) روپے کردی گئی ہے۔واضح رہے کہ وزارتِ منصوبہ بندی نے اخراجات میں اضافے کے ثبوت لف نہ کرنے کی بناء پر اعتراضات لگائے تھے مگر حکومت نے ان اعتراضات کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔
( بشکریہ روزنامہ خبریں )