یہ تاریخ اُس قوم کی ہے جس نے کبھی بھی زندہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ جی! مَیں ذکر کر رہا ہوں جاوید ہاشمی کی تیسری کتاب کا جس کا نام اُنہوں نے ”زندہ تاریخ“ رکھا ہے۔ یہ تاریخ جولائی 2006ءسے جولائی 2007ءتک کی جیل ڈائری پر مشتمل ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے ہمیں وہ واقعات بھی یاد آ گئے جن کو ہم فراموش کر چکے لیکن جاوید ہاشمی کی کتاب نے ایک مرتبہ پھر ہمیں وہ سب کچھ یاد دلا دیا جو مشرف کے دور میں پاکستان کے ساتھ ہوتا رہا۔ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے وہ تقریب یاد آ گئی جس میں اُس وقت کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد نے جاوید ہاشمی کی تند و تیز تقریر کے بعد اپنے خطاب میں اُن کو پابندِ سلاسل ہونے کی ”نوید“ سنا دی تھی۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کسی کو بے گناہ قید کرنے کی خبر ’نوید‘ کیسے ہو سکتی ہے؟ میرے لیے تو جاوید ہاشمی کے قید ہونے کی خبر اس لیے ’نوید‘ ٹھہری کہ انہوں نے جیل میں رہ کر تین کتابیں لکھ ڈالیں۔ پہلی کتاب ”ہاں مَیں باغی ہوں“ دوسری کتاب ”تختہ¿ دار کے سائے تلے“ اور تیسری ”زندہ تاریخ“ دسمبر 2016ءمیں شائع ہوئی۔ اگر جاوید ہاشمی معمول کے مطابق اپنی سیاست کر رہے ہوتے تو کتابوں سے محبت کرنے والوں کو یہ کتابیں کہاں میسر آتیں۔ جاوید ہاشمی زندہ تاریخ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ”یہ وہ قلم برداشتہ تحریر ہے جسے لکھتے ہوئے مَیں نے اُردو کے قواعد و ضوابط کا خیال رکھا ہے نہ اُسے اُردوئے معلی کی تحریر بنایا ہے۔ جب مَیں تکلیف سے گزرتا یا بے بسی کا سامنا کر رہا ہوتا، مایوسی کی بجائے اُس کیفیت کو مثبت انداز میں لیتا۔ جس کی وجہ سے مزاح کا رنگ بھی آ گیا ہے۔ مَیں نے پانچ سال تک جیل حکام سے جنگ لڑی، جہاں کاغذ اور قلم رکھنا بھی جرم تھا مَیں نے اپنے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے اور پانچ کتابیں لکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ قوم سے سیاسی رابطہ بھی ٹوٹنے نہیں دیا۔ کبھی جیل کے احکام کے مطابق جیل کی ڈیوڑھی کو استعمال کیا، کبھی عدالت کے احاطے کو ٹیلیفون استعمال کرنے کے اور کبھی ہسپتال کی انتظارگاہ کو۔“
یہ دیباچہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابھی جاوید ہاشمی کی پٹاری میں دو کتابیں اور بھی موجود ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ انہوں نے بہت سا ایسا سچ بھی تحریر کر دیا جو عام حالات میں کوئی اور شخص تحریر نہ کرتا۔ مثال کے طور پر اس کتاب میں انہوں نے چوہدری نثار کے بارے میں جو تحریر کیا وہ ملاحظہ فرمائیں ”ایک دن مجھے اطلاع ملی چوہدری نثار علی ملاقات کے لیے جیل کے باہر پہنچ چکے ہیں۔ ایسے میں میرے سامنے چوہدری نثار کی چشمِ تصور میں وہ تصویر آئی جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ اُن کے گا¶ں کے لوگ اُن کے والد صاحب سے کہا کرتے تھے آپ کا بیٹا فوجی بننے کے قابل تھا آپ نے اس کو سیاست میں کیوں ڈال دیا۔ میرا اُن کی اس رائے سے اختلاف ہے۔ چوہدری نثار علی ایک زیرک، ذہین اور موقع شناس سیاسی کردار ہیں۔ اپنے ہوں یا پرائے اُنہیں اپنی راہ میں حائل ہوتے ہوئے نظر آئیں تو انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے گُر آزمانے کا فن جانتے ہیں۔ مشرف نے حکومت سنبھالنے کے بعد اُن کو نظربند کیا تو انہوں نے اپنی رہائی کے لیے تگ و دو نہیں کی اور نہ ہی کسی فورم پر اپیل دائر کی۔ تین سال تک خاموش رہے پھر جدہ اور لندن چلے گئے۔ جونہی انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوا واپس آ گئے۔ پارٹی کا پارلیمانی لیڈر بننا چاہتے تھے۔ میری بدقسمتی کہ وہ مجھے اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھے۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ مَیں تو اسی دن جھاگ کی طرح بیٹھ جا¶ں گا جب نواز شریف پاکستان پہنچیں گے۔چوہدری نثار علی یہ بھی دعویٰ کرتے تھے کہ میاں صاحبان کو فوجی اور غیر فوجی حلقوں میں متعارف کروانے کا سہرا بھی اُن کے سر ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ نثار علی کی صلاحیتیں میاں صاحبان کے لیے وقف تھی جس وجہ سے وہ چوہدری نثار علی کی جائز و ناجائز خواہشات کے آگے خاموش تھے۔ مَیں چوہدری نثار کا جیل میں کئی دن سے انتظار کر رہا تھا۔ چوہدری نثار نے چھوٹتے ہی کہا مَیں تو ملنے کے لیے نہیں آ رہا تھا میاں صاحب نے مجبور کیا تو مَیں آ گیا۔ مَیں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا مَیں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ نہ ملنے کی وجہ کیا تھی۔ اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور مَیں نے بھی کوئی اصرار نہ کیا۔“ اسی طرح جب موجودہ صدر ممنون حسین اُن سے ملاقات کے لیے جیل آتے ہیں تو وہ آ کر جاوید ہاشمی کو بتاتے ہیں کہ میرا جی تو بہت چاہتا ہے کہ مَیں آپ سے ہر ماہ ملاقات کے لیے آ¶ں لیکن میرے مالی مسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ مَیں آپ سے باقاعدگی سے ملاقات کے لیے آ¶ں۔
بظاہر یہ کتاب جیل کی ڈائری پر مشتمل ہے لیکن اس کو پڑھتے ہوئے یہ بھی احساس رہتا ہے کہ جاوید ہاشمی نے اپنی خودنوشت لکھ دی ہے۔ خاص طور پر ڈائری کے وہ اوراق جو انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر لکھے ہیں وہ نثر کا شاہکار نمونہ ہیں۔ ایک باپ کی طرف سے ہر وقت اپنی بیٹیوں کی صحت کے بارے میں فکرمند رہنا بھی اس کتاب کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ جاوید ہاشمی روایتی جاگیردار سیاستدان کی بجائے ایک شفیق باپ کے طور پر دکھائی دیئے جو ہر لمحے جیل میں رہنے کے باوجود اپنے خاندان کے دکھ سکھ کے فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں یہ ڈائری اُس زمانے کی ہے جب مشرف نے انہیں قید کیا اور میاں صاحبان معاہدے کے تحت سعودی عرب میں مقیم تھے۔ مسلم لیگ میں اختلافات جس طریقے سے اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ انہی اختلافات کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ کے عروج کے دنوں میں کیوں خیرباد کہا۔
کتاب کے آغاز میں جاوید ہاشمی نے جب یہ لکھا کہ جیل نے مجھے پانچ کتابیں تحفے میں دیں جس میں سے تین کتابیں شائع ہو کر سامنے آ گئی ہیں۔ اب میری اُن سے گزارش ہے کہ وہ ایک کتاب ”صبح کا بھولا ہوا شام کو …………“ کے متعلق بھی لکھیں کہ آخر وہ کونسی وجوہات تھیں جس پر وہ ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے گئے۔ اور پھر دھرنے کے دنوں میں پی ٹی آئی کو کیوں خیرباد کہا۔ یہ سب کچھ ابھی تک پوشیدہ ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف ایک اچھے ووٹ بینک کے ساتھ ملکی سیاست میں سرگرم ہے۔ جاوید ہاشمی کا عمران خان کو عروج کے زمانے میں چھوڑ جانا، اس بارے میں جاننا بھی تو پاکستان کی عوام کا حق ہے جسے اب سامنے آنا چاہیے۔ جاوید ہاشمی آج کل آزاد پنچھی کے طور پر ملتان کی سیاست کو دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے آبائی حلقے مخدوم رشید پر مسلم لیگ ن سے ایک ایسا شخص ایم این اے منتخب ہوا جس کی تعلیمی قابلیت کو کسی نے چیلنج کیا ہوا ہے۔ شاہ محمود قریشی بھی وہ حلقہ چھوڑ کر ملتان شہر میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں جاوید ہاشمی کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے لیے کسی سیاسی جماعت کا انتخاب کریں تاکہ اس مُردہ قوم کو معلوم ہو سکے کہ اُس کے لیے زندہ تاریخ لکھنے والا اپنی پارٹی کو کیوں چھوڑ کر گیا۔ اس کتاب کی نثر بہت خوبصورت ہے اگر اس کے اقتباسات بھی دے دیئے جاتے تو کالم کا پیٹ بھر سکتا تھا لیکن جاوید ہاشمی نے جیل میں لکھے گئے تکلیف دہ لمحات کو جس انداز میں قلمبند کیا وہ انہوں نے من و عن شائع کروا لیے کیونکہ اس بات کا مَیں عینی شاہد ہوں کہ اس کتاب کا مسودہ انہوں نے کمپوز کروا کر کم و بیش تین سال پہلے میرے حوالے کیا تھا اب جب کتاب شائع ہو کر سامنے آئی تو مجھے حیرت ہوئی کہ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں بھی اُن کا کلمہ حق موجود ہے شاید اسی لیے انہوں نے اس کتاب کا نام بھی ’زندہ تاریخ‘ رکھا لیکن مُردہ قوم کے لیے۔
( بشکریہ روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ