مہمان تو بڑا ہی پیارا ہے۔پورا سال انتظار کے بعد آتا ہے۔اور ایک مہینہ قیام کرکے پورے سال کا انتظار سونپ کرواپس چلا جاتا ہے۔اور میزبانوں کو ایسے مہمان کا انتظار کیوں نہ رہے جو اتنی فیوض و برکات ساتھ لاتا ہے کہ پورا سال بھی کہیں سے نہیں ملتیں۔البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہر کسی کے نزدیک فیوض و برکات کا غالبا” اپنا ہی مفہوم ہے۔اور ان کے حصول کا اپنا طریقہ بلکہ کچھ انسانوں کے لحاظ سے اپنا”طریقہ واردات”۔
انسانوں کی ایک قسم تو وہ ہے جن کے نزدیک واقعی فیوض و برکات کا حقیقی اور رائج مفہوم ہی ہے۔اور دوسری قسم وہ ہے جنہوں نےاپنی اپنی حجت اور بدعت کے لحاظ سے اپنا من مانامفہوم بنا رکھا ہے۔اور ان میں وہ قابل ذکر ہیں جن کے لئے رمضان کا آنا گویا”سیزن کمانا”ہوتا ہے۔جیسے شمالی علاقہ جات میں گرمیوں کے موسم میں وہاں "سیزن کمایا”جاتا ہے۔ہمارے یہاں باقی علاقوں میں اسی طرح رمضان کمایا جاتا ہے۔اور رمضان آتے ہی یہ طبقہ بڑھ چڑھ کر دونوں ہاتھوں سے رمضان کے”فیوض و برکات” سمیٹنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔
اور مزے کی بات یہ کہ پھر ان سمیٹی ہوئی فیوض و برکات میں سےعمرے اور حج کرکے،مسجدوں اور فلاحی اداروں میں بھاری چندے دے کے،غریبوں کو آٹے کے تھیلے دے کے اپنی طرف سے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری جاتی ہے۔اور پھر ان کارگزاریوں کی تشہیر تصویروں اور سیلفیوں کے ذریعے بڑے فخر سے مومنوں والی شکل بنا بنا کے کی جاتی ہے۔
واہ حضرت انسان،تجھ سے بڑا فرشتہ نہ شیطان۔۔بلکہ میر امن”داستان باغ و بہار”میں درست فرما گئے ہیں کہ انسان اپناشیطان آپ ہے۔اور ویسے ہمارابھی ذاتی خیال یہی ہے کہ انسان کواللہ نے اشرف المخلوقات بنایا۔خود کو تو سجدہ کروایا لیکن فرشتوں اور شیطان کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔اب ساجد مسجود سے بڑھ کر تو نہیں ہو سکتا نا۔یعنی ساری مخلوقات سے بڑا یہ حضرت انسان ہے اور اس سے بڑی صرف اللہ کی ذات ہے۔تو ہر ذی نفس اپنے سے طاقت ور ہستی کے ہی قابو میں آتا ہےتو پھر ہماری سمجھ میں کچھ کچھ یہ بھی آیا کہ جب رمضان میں شیطان کو بند کردیا جاتا ہے تو پھر بھی یہ انسان کہلائی جانے والی مخلوق ایسے ایسے شرمناک کارنامے کیسے سر انجام دیتی ہے کہ شیطان بھی حیران و پریشان رہ جائے۔حالانکہ وہ تو ویسے ہی اپنی مجلس شوری ٰمیں اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
"ہےاگر مجھ کوخطر کوئی تو اس امت سے ہے۔
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو”
وہ تو خود اس امت کی بیداری سے خوف زدہ ہے۔اور اس امت کا یہ حال کہ”ہمیں سو گئے داستان کہتے کہتے”اور اب سوئے”شیر”کو اٹھائے کون؟؟؟جبھی توعلامہ صاحب تنبیہہ کر گئے ہیں "تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”
یہاں ایک لطیفہ یاد آیا کے پچھلے سال حج کے دنوں میں ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔جس میں چند انسانوں کو دکھایا گیا تھا جو شیطان کو کنکریاں مار رہے تھے اور شیطان غصے سے ان پر چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا”سارا سال یاریاں تے حج تے غداریاں”۔
ویسے تو بڑے غرور سے اور تحقیر آمیز انداز میں فرمایا جاتا ہے
"فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجود ملائیک ہوں مجھے انساں ہی رہنے دو۔
اور تو اور اللہ میاں سے یہ گلہ کرتے نہیں تھکتے
"پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے کہے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا۔۔۔
اب حضرت اعلی مقام سے کوئی پوچھے کہ شیطان کے چیلے اور مرید بننا تو جیسے بڑے فخر اور توقیر کا باعث ہے نا۔
خیر،مہمان تو آتا ہی جانے کے لئے ہے۔پر یہ شیطان کے دیوانے انسان کہاں جائیں۔لگتا تو یہی ہے کہ اس کی محفل سے یہ دیوانے کہیں نہیں جانے والے۔
یہ سارے تفکرات اور خدشات اپنی جگہ اہم۔۔۔جانے اس ماہ رمضان ان مرد حضرات کی سحری و افطاری کا کیا بنا ہوگا جن کے گھروں کی عورتیں گذشتہ دنوں عالمی یوم خواتین پر بینرز اٹھا اٹھا کے نعرے لگاتی رہیں”اپنا کھانا خود گرم کرلو”
"الوداع پیارے مہمان،الوداع ماہ رمضان”
فیس بک کمینٹ