ایسے ہی ایک لطیفہ نظر سے گزرا۔جسے پڑھ کر ہنسی تو آئی مگر پریشانی زیادہ ہوئی اور پشیمانی اس سے سوا۔پہلے ذرا لطیفہ ملاحظہ فرما ئیں
لڑکا وارفتگی سے التجا کرتے ہوئے”میں تمہیں دل وجان سے چاہتا ہوں۔میری محبت قبول کر لو”
لڑکی بےنیازی سے”دیکھو میری اپنے کزن سے منگنی ہو چکی ہے۔ایک اور کزن سے بھی میری اچھی انڈر سٹینڈنگ ہے۔اپنے ایک کلاس فیلو سے بھی میری بہت گہری دوستی ہے۔ وٹس ایپ اور مسنجر پر بھی میرے دو چار بےتکلف اور گہرے دوست ہیں۔۔۔
لڑکا بے تابی سے بات کاٹتے ہوئے”کوئی مسلہ نہیں مجھے بھی ان سب کے ساتھ کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کر لو”
اب اسے لطیفہ کہا جائے یا دور حاضر کا المیہ۔
اور سچ بھی یہی ہے کہ وہ محبت تو اب خواب و خیال ہی ہوگئ کہ”ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا”اور اب لڑکیاں بھی اتنی سادہ اور بےوقوف نہیں رہیں کہ اس خود فریبی میں خود کو مبتلا کر کے خود کو ہی تسلی دیتی رہیں اور مطمئن رہیں کہ”وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا”بلکہ اب تو تنگ آمد بجنگ آمد سے بات یہاں تک آن پہنچی”کہ خود بدل گیا میں اس کے بدل جانے تک”اب محبوب یا عاشق کے ہرجائی ہو جانے اور اس کی بےوفائی پر دل کو روگ نہیں لگائے جاتے اور نہ خون تھوک تھوک کر جان دی جاتی ہے بلکہ ہر دو جانب واقعی صورت حال یہ ہوتی ہے۔
توہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی،اور نہیں اور سہی
اور فریقین نے منشور محبت میں ترمیم کرکے بلکہ اجتہاد کرکے اس اصول کو دستور محبت کی اولین شق بنا لیا ہے
محبت میں وفاداری سے بچئے
جہاں تک ہو اداکاری سے بچئے
تو جناب آج کی نسل چونکہ ویسے ہی ہر معاملے میں خود کو سٹریٹ فارورڈ(straight forward)کہلانے میں فخر محسوس کرتی ہے اور کسی بھی لحاظ،مصلحت یا مروت کو منافقت جانتی ہے اور ایسی کسی تلقین یا نصیحت پر خود کو اور ایک دوسرے کو بڑی سنجیدگی سےسمجھاتی ہے کہ”اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو”
ویسے بھی اب "دل اور پیار کے لفظوں کے لئے ہم قافیہ الفاظ سے نئی تراکیب بھی گھڑ لی گئی ہیں۔یعنی”دل ول پیار ویار”لیں جی اردو زبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے کا سہرا بھی باندھ لیا۔دل اور پیار کی بے توقیری اور جگ ہنسائی پر ہمارےدل سے درد بھری آہیں نکلتی ہیں اور یہ ناقدرے بڑے تمسخرانہ انداز میں کہتے ہیں
"کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو”یعنی یہ صورت حال ہے کہ”ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے، کیا؟”
اور جو کج فہم ،بھولے بادشاہ اب بھی سچی محبت اور وفا کا علم اٹھائے پھرتے ہیں ان کا حال کچھ یوں سمجھیں”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں”۔اب تو محبوب کو یہ دھمکی دینا بھی بےوقوفی لگتی ہے
وفا کیسی،کہاں کا عشق،جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل،تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
جی جی بالکل ایسا ہی ہے اب نہایت عقلمندی اور باہمی افہام و تفہیم اورپورےاعتمادسے معاملات طے پاتے ہیں ۔جسے آجکل(mutual understanding) کہا جاتا ہے یعنی سیدھا سا فارمولا
تمام عمر کی نامعتبر رفاقت سے
کہیں بھلا ہو کہ پل بھر ملیں،یقیں سے ملیں
جناب اب محبت میں ایک دوسرے کو لاحق ہوکر جان کا آزار نہیں ہوا جاتا بلکہ ایک دوسرے کے”حق آزادی”کا مکمل "احترام”کیا جاتا ہے۔معاملات محبت میں نہ خود کسی حد کے قائل ہیں اور نہ دوسرے پر کوئی حد لگاتے ہیں۔یعنی”حد ہے کہ بے حد ہے”اور ہم جیسے بچارے "اگلے وقتوں کے لوگ”بے بسی سےیہی سوچتے رہ جاتے ہیں”حد ہی ہو گئی ہے یار”
لیکن زمانے کے انداز بدلتے رہتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ راگ پرانا بھی ہو تو ساز پھر بھی بدل جاتے ہیں۔اور یہ بھی تو حقیقت ہے کہ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے”تو پھر علامہ صاحب اپنی دور اندیشی سے بالکل درست فرما گئے تھے”محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی”
تو جناب دنیا کو محبت کے معاملے میں بھی” کیا سے کیا” ہم دنیا والوں نے ہی تو کیا۔سچی محبت اوروفا کی قدر نہ جانی۔عورت کا تمسخر اڑایا جاتا جب وہ کہتی تھی کہ میری ذات ایک بے رنگ پانی کا قطرہ ہے اور تم میری زمین محبت کا اکلوتا سورج کہ جس کی محبت کے نور سے بھری شعاعیں جب میری ذات کےاس بے رنگ قطرے پرپڑتی ہیں تو اس میں زندگی کے سارے رنگ بھر جاتے ہیں تو پھر اب 79چاندوں والی مشتریوں سے التجائیں تو کرنی ہی پڑیں گی نا کہ”ان سب کے ساتھ مجھے بھی کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کر لو”اب اس در نایاب کی کھوج میں زمین کی خاک کیوں چھانتے ہو جسے ایک بے مایہ ریت کا ذرہ سمجھا ہمیشہ۔
"کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ”
فیس بک کمینٹ