زنجیر کی سب سے طاقتور کڑی اس کی کمزور کڑی ہوتی ہے ۔۔کیونکہ وہ کسی بھی وقت زنجیر کو توڑ سکتی ہے۔۔۔۔محبت میں بڑی طاقت ہوتی ہے محبت وہ سب کروا سکتی ہے اور کروا لیتی ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔۔۔مگر محبت ہی انسان کی کمزوری بن جاتی ہے۔۔جسے کوئی نہیں توڑ سکتا وہ محبت کے نام پر پگھل جاتا ہے۔۔حواس خمسہ پر قربان جائيں۔۔۔ہزاروں گنا بڑھ کر کام کرنے لگتے ہیں۔۔بینائی ہو یا قوت گویائی، حس سننے کی ہو یا لمس کی ہر اک طاقت اور قوت بڑھ جاتی ہے۔۔۔۔
درجنوں افراد کی محفل میں محبوب کو نظر میں رکھنا اور چاہنے والوں کا افراد کی تعداد اور بہتات سے بے پرواہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ملاقات اور بات کرنا۔۔۔محبوب کی آواز میں خراش ہو یا آوازکیسی بھی ہو ہی دل کے تار چھیڑتی ہے دھن بکھیرتی ہے ۔۔وہ کہتے جائيں اور ہم سنتے جائيں۔۔۔گویا وہ پھول بکھیریں اور ہم چنتے جائيں۔۔۔ان کے لمس کے احساس سے صندل ہوتے جاتے ہیں زخم جتنے بھی تھے مندمل ہوتےجاتے ہیں۔۔ہر آہٹ پر ان کا گمان ہوتا ہے ۔۔وہ ذرا چپ ہو جائيں تو دل پریشان ہوتا ہے۔۔۔۔دو ہاتھ پیر والا گوشت پوست کا انسان ظاہری طور پر جن کاموں کو کرنے سے قاصر نظر آتا ہے محبت کے فسوں میں وہ سب پہاڑ سر کرتا جاتا ہے۔۔۔
گرمی کے موسم میں اٹھارہ گھنٹے بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا مگر روزہ دار رہتا ہے۔۔۔کون باشعور ہے جو جلتی آگ میں کود جاۓ مگر بے خوف و خطر آتش نمرود میں عشق بہ خوشی غوطے لگاتا ہے۔۔۔ آج سنگ مر مر والی پر آسائش صفا مروہ کی سعی پر مرد بھی تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں مگر وہ محبت ہی تھی جس کی طاقت ایک عورت کو بیابان پہاڑی صحرا میں ادھر سےادھر صفا اور مروہ کے اتار چڑھاو سے گزار کر لے گئی۔۔۔۔کچھ چبھ جاۓ یا چوٹ لگے انسان فوراً ہاتھ کھینچ لیتا ہے مگر وہ محبت ہی تھی جس نے ابو بکر صدیقؓ کو ڈسے جانے کے باوجود پاؤں ہٹانے نہ دیا۔۔۔بظاہر عام سی صورت مجنوں کی نظر میں لیلی ہے اور محبت ہی ہے جس کے نام پر بڑے بڑوں نے ناموافق حالات کو جھیلا ہے۔۔۔صنف نازک نے محبت کے نام پر خاوند کیا پورے خاندان کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے اپنی بساط سے بڑھ کے کر دکھایا ہے۔۔۔اپنے منہ کا نوالا باپ نے بیٹی کو کھلایا ہے اور خود گیلا رہ کر ماں نے بچے کو سوکھے پر سلایا ہے۔۔۔محبت نے عبدالستار کو ایدھی بنایا ہے۔۔۔محبت نے گھڑے پر دریا پار کرایا ہے محبت نے اقبال کو علامہ اقبال اور اسداللہ خان کو غالب بنایا ہے۔۔۔محبت نے پتھر کو چھو کر پارس کر ڈالا، ہیر کو رانجھا کر ڈالا، محبت الوہی جذبہ ہے اس کے وسیع رنگ اور نت نئے ڈھنگ ہیں۔۔محبت سنگ ہے تو سب موسم بہار ہیں بسنت ہیں۔۔۔
محبت پھول ہے ،بادل ہے ہوا ہے،محبت چاند ہے،چراغ ہے ،شفا ہے۔۔۔پھول بلا تفریق خوشبو بکھیرتے ہیں،بادل برسے یا ہوا چلے سب کو سیراب کرتے ہیں ،محبت شفا ہے۔۔۔ دل ہو دماغ ہو ۔۔زخم ہو یا جلے ہوۓ کا داغ ہو ۔۔محبت سب غموں کا علاج ہے۔۔۔میٹھے میٹھے درد کا احساس ہے ۔۔۔ایسا ممکن نہیں کہ آپ کسی ایک سے محبت کریں اور تمام دنیا سے نفرت۔۔۔محبت اور نفرت کا ایک دل میں اکٹھے پنپنا ممکن نہیں۔۔۔محبت کی جڑیں گہری، شاخيں امر بیل کی مانند اور عمر برگد نما ہوتی ہے۔۔۔یا تو محبت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔۔۔محبت کرنے والوں کے دل میں زمانے بھر کے غم و الم کی جگہ ہوتی ہے۔۔۔وہ محبت کے خواہش مند تو ہوتے ہیں مگر ان کی محبت جوابی محبت سے مشروط نہیں ہوتی۔۔۔محبت کیے جاتے ہیں ۔۔۔
فیس بک کمینٹ